کئی ممالک غزہ فورس میں شامل ہونے کو تیار، مگر اسرائیل کی منظوری لازمی، مارکو روبیو
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ کئی ممالک نے غزہ کے لیے مجوزہ بین الاقوامی سیکیورٹی فورس میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو ان ممالک کے بارے میں مطمئن ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اسرائیل کے دورے پر گئے مارکو روبیو نے بتایا کہ مجوزہ سیکیورٹی فورس کی تشکیل سے متعلق مذاکرات جاری ہیں اور اسے جتنا جلد ممکن ہو نافذ کیا جائے گا۔
???????? ???????? US Secretary of State Marco Rubio voiced hope Friday of soon putting together an international force to police the ceasefire in Gaza and said Israel, which opposes including Turkey, could veto participants.
➡️ https://t.co/q2sEHS3dnD pic.twitter.com/D6rYQ9hoU9
— AFP News Agency (@AFP) October 24, 2025
تاہم، یہ واضح نہیں کہ اس فورس کو حماس کے ساتھ کسی مفاہمت کے بغیر کس طرح تعینات کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 2 ہفتے قبل طے پانیوالی جنگ بندی ایک تاریخی پیش رفت ہے، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ ’اتار چڑھاؤ اور مشکلات‘ ابھی باقی ہیں۔
’کوئی پلان بی نہیں ہے، یہی بہترین منصوبہ ہے اور یہی کامیاب ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں:
انہوں نے زور دیا کہ ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گےکہ 7 اکتوبر جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں، اور غزہ ایک ایسا علاقہ بن جائے جہاں سے نہ اسرائیل کو خطرہ ہو، نہ وہاں کے لوگوں کو۔
یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
اس کے جواب میں اسرائیلی کی جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 68,280 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، ان اعداد وشمار کو اقوامِ متحدہ معتبر سمجھتی ہے۔
مزید پڑھیں:
مارکو روبیو نے کہا کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا، جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں لازم قرار دیا گیا ہے۔
’اگر حماس نے غیر مسلح ہونے سے انکار کیا تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، اور اس پر عمل درآمد کرانا ضروری ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حماس حکومت نہیں چلا سکتی اور نہ ہی غزہ کے مستقبل کے نظم و نسق میں شامل ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:
مارکو روبیو کا اسرائیل کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نائب صدر جے ڈی وینس سمیت اعلیٰ امریکی حکام بھی اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔
جو اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
اسرائیلی میڈیا میں امریکی مداخلت کو ’بی بی سِٹنگ‘ یعنی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی نگرانی کہا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
گزشتہ دنوں وائٹ ہاؤس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان کشیدگی کی خبریں سامنے آئیں، خصوصاً غزہ میں حالیہ فوجی حملے اور مغربی کنارے کے انضمام کے لیے کنیسٹ کے ووٹ کے بعد، جس دوران وینس اسرائیل میں موجود تھے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹس کے مطابق، امریکی حکام نے کہا کہ وہ اسرائیل کی طرف سے کسی بھی ایسے اچانک اقدام کو برداشت نہیں کریں گے جو جنگ بندی کو نقصان پہنچا سکے۔
اخبار کے مطابق امریکی حکومت دراصل اسرائیل سے ہر ممکن فوجی کارروائی سے قبل پیشگی اطلاع کی توقع کر رہے ہیں، عملی طور پر امریکا اسرائیل کے کچھ سیکیورٹی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
عوامی سطح پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ان رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کا تعلق شراکت داری پر مبنی ہے۔
امریکی دباؤ ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب اسرائیل عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا شکار ہے۔
نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ غزہ کی جنگ کو ملکی سطح پر کامیابی کے طور پر پیش کریں، جو 2026 کے انتخابات میں ان کی مہم کا حصہ بن سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا پلان بی ٹرمپ جنگ بندی جے ڈی وینس غزہ کشیدگی کنیسٹ مارکو روبیو نیتن یاہو واشنگٹن وزیر خارجہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا پلان بی جے ڈی وینس کشیدگی مارکو روبیو نیتن یاہو واشنگٹن مارکو روبیو مزید پڑھیں نیتن یاہو نے کہا کہ کے مطابق انہوں نے کے لیے رہا ہے اور اس
پڑھیں:
اسرائیل کامغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ امن کیلئے خطرناک ہے، امریکی وزیر خارجہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کے منصوبے کو خطے میں امن عمل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اقدام مذاکراتی عمل کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ اسرائیل اپنے اس منصوبے پر عملی طور پر عمل درآمد کرے گا، اگر ایسا ہوا تو خطے میں کشیدگی میں اضافہ یقینی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی انرواپر الزام لگایا کہ یہ ادارہ دراصل حماس کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے، جس کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ حماس کو مستقبل میں غزہ کی کسی بھی انتظامیہ یا حکومت کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کی پالیسیاں اور اقدامات امن عمل کے منافی ہیں۔ ان کے بقول، غزہ ٹاسک فورس صرف ان ممالک پر مشتمل ہوگی جن پر اسرائیل کو مکمل اعتماد اور اطمینان ہوگا، تاکہ غزہ کی تعمیر نو اور امن کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔
مارکو روبیو نے مزید بتایا کہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے لیے حماس کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اور امریکا اس سلسلے میں اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی اولین ترجیح تمام انسانی بنیادوں پر معاملات کا پُرامن حل نکالنا اور علاقے میں استحکام کو یقینی بنانا ہے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔