اسلام ٹائمز: فلسطینوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہے، جسے بزدل صہیونیوں کے حملے نہیں مٹا سکتے۔ یہ کیا قوم ہے! جو دو برس تک جنگ کی بھٹی میں سلگتی رہی۔ تباہی و بربادی کی آندھیوں نے انکے دامن گلشن کو راکھ بنا دیا تھا۔ جسے دنیا سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ ختم ہوگئی ہے، آج پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ہے۔ اس نے دشمن کے مکرو فریب کے جال کو تار تار کر دیا، دشمن کی تمام تر سازشوں کو انہی پر الٹا دیا۔ اس نے دنیا سے منوایا کہ یہ قوم کبھی نہیں جھک سکتی ہے اور نہ کوئی جابر اسے جھکا سکتا ہے۔ یہ ہار ماننے والی قوم نہیں ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
امیر جماعت اہل حرم پاکستان
مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان
غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے بہت ہی خوفناک قسم کی تباہی و بربادی پھیلائی تھی۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو مناظر سامنے آئے ہیں، وہ بہت ہی زیادہ الم ناک ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء سے جنگ بندی تک 60 ہزار سے زائد لوگ شہید کیے گئے، لاکھوں زخمی ہیں اور بیس (20) لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور پناہ گزین ہوگئے۔ کئی خاندان ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے آبائی گھر بادل نخواستہ چھوڑے اور مصیبت بالائے مصیبت کہ جن جگہوں پر انہوں نے پناہ لی تھی، ان کو بھی انہیں بار بار چھوڑنا پڑا۔ دربدری کا صدمہ ایک طرف اور شدید ترین اذیتوں کا سامنا دوسری طرف۔ ان کے خیمے محفوظ نہ تھے۔ ان کی پناہ گاہیں غیر محفوظ تھیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں بھی بالکل غیر محفوظ ہوگئی تھیں۔ وہ جہاں جاتے تھے، اسرائیلی طیارے اور بارود ان کا پیچھا کرتا۔ جنگ کے اختتام کے بعد کا منظر دوران جنگ کے مناظر سے بالکل مختلف اور الگ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج دانستہ طور پر معاہدہ کے خلاف ورزی کر رہی ہے اور حالات و واقعات کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلاف ورزیاں نہیں رکیں گی۔ کیونکہ صیہونی بہت فریب کار لوگ ہیں، بطور خاص اسرائیلی وزیراعظم دنیا کا بدترین اور قابل نفرت شخص ہے، جو انسانیت کا کھلا دشمن ہے، وہ اس تمام ظلم و ستم کو اپنا الیکشن جیتنے کے لیے بطور فتوحات استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے زیر التواء مقدمات سے جان چھڑانے کے لیے اس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکی اور مصری صدر کی سربراہی میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے پر 24 گھنٹوں کے بعد اس کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔ مگر ان چوبیس گھنٹوں میں بھی اسرائیل نے اپنا طلم و ستم نہ روکا اور وہ غزہ پر مسلسل بارود برساتا رہا۔ فلسطینی عوام اس دوران اپنے اپنے مقامات پر ہی براجمان رہے۔ انہیں خوف تھا کہ ظالم دشمن فریب دیگر اس معاہدے کے خلاف ورزی کرکے دوبارہ پھر حملہ نہ کرے دے، کیونکہ ان کے مدنظر اسرائیلی وزیروں سموتریچ اور بن گویر وغیرہ کے بیانات سامنے تھے، جو جنگ بندی کے سخت مخالف تھے۔
یہ ہر وقت اپنی عسکری قوت کو اہل غزہ پر حملے جاری رکھنے پر اکسا رہے تھے۔ فلسطین کی مزاحمتی قوتوں نے بھی بہت احتیاط سے کام لیا۔ انہوں نے اپنی نقل و حرکت کو محدود رکھا۔ عوامی مقامات پر آنے سے گریز کیا۔ کیونکہ وہ ایک چالاک، سفاک اور ظالم دشمن کا کئی سالوں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ جونہی جنگ کا معاہدہ نافذ ہوا تو حماس نے اپنے تقریباً سات ہزار مجاہدوں کو غزہ کے مختلف علاقوں میں تعینات کر دیا۔ تاکہ وہ امن و امان کو برقرار رکھیں، بدامنی کو روکیں، متاثرین کی واپسی میں ان کی مدد کریں اور ان کے مسائل حل کریں۔ مجاہدین کے علاوہ بلدیاتی عملے، سرکاری محکموں اور وزارتوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی بہت اخلاص سے کام کیا۔ یہ سب لوگ اپنے محکمانہ شناخت کے ساتھ سامنے آئے، تاکہ آبادکاری کے کام کو منظم طریقے سے انجام دیا جا سکے۔ یہ کام نہایت کھٹن تھا، کیونکہ ایک طرف ان لٹے پٹے قافلوں کا غم تو دوسری طرف سامنے کھڑے دشمن کے ٹینکوں اور توپوں کا خوف تھا۔ سلام عقیدت ہے ان مخلصین کو جنہوں نے نہایت لگن سے یہ کام سرانجام دیا۔
جنگ کے اثرات قوموں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں منفی رویئے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس کا ہر وقت سدباب اشد ضروری ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے سول اور سروسز کے اداروں کو فوراً اپنے کام پر لگا دیا گیا، تاکہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جب لوگوں نے سرکاری عملے کو یوں چاک و چوبند دیکھا تو وہ خوشی کے ساتھ ساتھ ورطئہ حیرت میں پڑ گئے۔ کیا منظر ہوگا! واقعی قابل فخر ہے کہ یہ فلسطینی قوم جو تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے ڈھیروں سے نکل کر پھر اپنے مستقبل کی طرف رواں دواں دکھائی دے رہی ہے۔ جس کی آنکھیں عزم و ہمت نے امید اور یقین کے ساتھ روشن کر دی ہیں۔ یہ عظیم قوم اپنے دکھ اور الم بھول گئی، اپنے زخموں پر صبر کیا، شہداء کے لیے بلندی درجات کی دعائیں۔ زخمیوں کے لیے شفا یاب ہونے کی دعائیں ان کے لبوں پر ہیں اور وہ نئے حوصلے کے ساتھ اپنے مستقبل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔
فلسطینوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہے، جسے بزدل صہیونیوں کے حملے نہیں مٹا سکتے۔ یہ کیا قوم ہے! جو دو برس تک جنگ کی بھٹی میں سلگتی رہی۔ تباہی و بربادی کی آندھیوں نے ان کے دامن گلشن کو راکھ بنا دیا تھا۔ جسے دنیا سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ ختم ہوگئی ہے، آج پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ہے۔ اس نے دشمن کے مکرو فریب کے جال کو تار تار کر دیا، دشمن کی تمام تر سازشوں کو انہی پر الٹا دیا۔ اس نے دنیا سے منوایا کہ یہ قوم کبھی نہیں جھک سکتی ہے اور نہ کوئی جابر اسے جھکا سکتا ہے۔ یہ ہار ماننے والی قوم نہیں ہے۔ جنگ کے بعد حکومتی نظم و نسق نہایت کمزور ہو جاتا ہے، ذخیرہ اندوز اور منافع خور سر اٹھاتے ہیں اور بازاروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر فلسطینی حکومت نے ان تمام کلپرٹس پر قابو پایا۔ ایسے مجروموں کے ہاتھ روکے۔ ان کے خلاف کارروائی کی، جس سے عام لوگوں میں تحفظ کا احساس اجاگر ہوا۔ اس عمل سے اس زخمی قوم میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ ایک باوقار قوم ہے، جو جنگ کے زخموں کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ لوگ تباہ گھروں پر کھڑے ہوکر آنسو نہیں بہا رہے بلکہ ان گھروں کے ملبوں کے ساتھ ایک نئی اور روشن صبح کو برآمد کرنے کی طرف گامزن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے کہ وہ ایک کے ساتھ ہیں اور جنگ کے کے لیے کے بعد رہی ہے قوم ہے
پڑھیں:
ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل
عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر
اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم اور قلم کو چھوڑا تو انتشار اور فساد الارض نے وہاں جگہ لی، قومی علما و مشائخ کانفرنس سے خطاب
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھارت کو دہشت گردی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دشمن کو چھپ کر نہیں بلکہ للکار کر مارتے ہیں۔چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر نے قومی علما و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم اور قلم کو چھوڑا تو انتشار اور فساد الارض نے وہاں جگہ لی۔انہوں نے کہا کہ عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، دہشت گردی پاکستان کا نہیں ہندوستان کا وطیرہ ہے، ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ اسلامی ریاست میں ریاست کے علاوہ کوئی جہاد کا حکم نہیں دے سکتا، معرکہ حق میں اللّٰہ کی نصرت سے کامیابی ملی۔انہوں نے کہا کہ علما قوم کو متحد رکھیں اور قوم کی نظر میں وسعت پیدا کریں۔