قید کے پار روشنی؛ فلسطینی استقامت کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا نے تاریخ میں بہت سے معجزات دیکھے، مگر کچھ معجزے صرف دیکھنے کے لیے نہیں، سمجھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ فلسطین آج بھی اسی معجزے کی سرزمین ہے۔ جہاں خون مٹی میں جذب ہو کر ایمان بن جاتا ہے، جہاں زخم چراغ بنتے ہیں، اور جہاں قید بھی آزادی کی علامت بن جاتی ہے جب اسرائیلی قیدی عمری میران کی رہائی کے مناظر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر سامنے آئے تو بیش تر لوگوں نے صرف ایک اسرائیلی کی واپسی دیکھی، مگر حقیقت کا دوسرا رُخ کہیں زیادہ حیران کن تھا۔ دو سال سے زائد عرصے تک کسی قیدی کو زیرِ زمین سرنگوں میں محفوظ رکھنا، بغیر کسی شور، غل یا سراغ کے یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی گئی، یہ نظم، حکمت، صبر اور ایمان کی جنگ تھی۔ عمری میران کی جسمانی حالت بہتر تھی، چہرے پر غذائیت اور اطمینان کے آثار تھے۔ یہ صرف ایک پیغام تھا کہ حماس نے قیدی نہیں، امانتیں سنبھالیں۔ دنیا کے لیے یہ ناقابلِ یقین تھا کہ زمین کے نیچے، تباہی کے بیچ، اتنے عرصے تک کوئی زندہ، محفوظ اور پرامن رہ سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سیاست اور فوجی تزویرات ناکام ہو جاتی ہیں، اور ایمان کی تدبیر غالب آ جاتی ہے۔
سرنگوں میں زندگی… دن کی روشنی سے دور، زمین کی خاموشی تلے، پھر بھی دنیا کی مسلسل نگرانی سے بچا کر قیدیوں کو رکھنا یہ محض طاقت نہیں بلکہ غیر معمولی تدبیر، استقامت اور ضبط کا مظہر ہے۔ یہ واقعہ دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ طاقت ہمیشہ اسلحے میں نہیں ہوتی، کبھی کبھی وہ خاموشی، حکمتِ عملی اور ایمان کی روشنی میں چھپی ہوتی ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی بسیں جب خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس پہنچیں تو وہاں ایک عجیب منظر تھا۔ کچھ اپنے زخم دکھانے آئے تھے، اور کچھ اپنے زخم چھپانے۔ یہ قافلے صرف قیدیوں کے نہیں، صبر، قربانی اور امید کے قافلے تھے۔ ہر آزاد سانس، فلسطین کی فتح کی گواہ بن چکی تھی۔ اسی کاروان میں ایک نام نمایاں تھا خیری حسن سلامہ۔ نابلس کا یہ اسیر 23 سال بعد گھر لوٹ رہا تھا۔ اس کے بھتیجے، جنہوں نے اسے صرف تصویروں میں دیکھا تھا، آج قومی لباس پہن کر دروازے پر کھڑے تھے۔ ان کے لیے یہ ملاقات کسی خواب کے سچ ہونے جیسی تھی۔ سلامہ کو 15 جولائی 2003 کو گرفتار کیا گیا۔ وہ کتائب شہداء الاقصیٰ کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہوں نے دوسری انتفاضہ کے دوران اسرائیلی افواج کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان پر عمر قید کی سزا سنائی گئی اور یہ ’’عمر‘‘ واقعی ایک پوری زندگی بن گئی۔
قید کا آغاز مگر اْس وقت ہوا تھا جب وہ صرف 13 سال کے بچے تھے۔ آزادی کا سبق انہوں نے پہلی گرفتاری کے دوران سیکھا۔ دو سال بعد رہا ہوئے، مگر جلد ہی دوبارہ مزاحمت میں شریک ہو گئے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران جب ان کا نام اسرائیلی فوج کی فہرست میں آیا، تو ان کے گھر پر چھاپے پڑے، املاک مسمار کی گئیں، اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا اور بالآخر وہ دن آیا جب وہ اپنے ایک سالہ بیٹے کو پیچھے چھوڑ کر قید میں چلے گئے۔ آج وہ بیٹا جوان ہے، خود باپ بن چکا ہے اور سلامہ کے پوتے پہلی بار اپنے دادا کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خاندان کی خوشی نہیں، ایک قوم کی استقامت کی علامت ہے۔ سلامہ نے جیل میں تعلیم حاصل کی، سوشل ورک میں بیچلر ڈگری مکمل کی، اور ماسٹرز کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے قیدیوں کے درمیان تعلیم، نظم و ضبط اور اتحاد کی فضا قائم کی۔ مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی۔
2019 میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا، انہیں آخری دیدار کی اجازت نہ ملی۔ 2023 میں بھائی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور 7 اکتوبر کے بعد جب غزہ پر بمباری شروع ہوئی، تو جیلوں کے اندر فلسطینی قیدیوں کو اذیت، بھوک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سلامہ کئی بار موت کے دہانے تک پہنچے، مگر ان کے ایمان کی روشنی بجھی نہیں۔ آج جب وہ واپس اپنے شہر نابلس پہنچے، تو فضاؤں میں اذان کی طرح ایک صدا گونجی! استقامت کی، وفا کی، اور آزادی کی۔ یہ ملاقات ایک نظریے کی جیت ہے، وہ نظریہ کہ صبر کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ’’یہ چراغِ صبر جلتا ہے تو بجھنے نہیں پاتا؍ یہ وہ دل ہے جو ظلمت میں بھی اُجالا کرتا ہے‘‘۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، 1966 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہائی دی گئی۔ ان میں سے 1716 کو غزہ کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے قریب آزاد کیا گیا، جب کہ 250 قیدی جو طویل المدت یا عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے انہیں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور بیرونِ ملک منتقل کیا گیا۔
یہ رہائی محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں، ایک اخلاقی اور روحانی فتح ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت بھی 11,100 سے زائد فلسطینی قید ہیں جو تشدد، بھوک اور طبی غفلت کے شکار ہیں۔ متعدد قیدی دورانِ حراست جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اسیران کے دفتر اطلاعات کے ڈائریکٹر نے کہا: ’’قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی ایک عظیم قومی دن ہے۔ ان قیدیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کئی دہائیوں سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ قابض دجال ہمیشہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ محض سیاسی بیان نہیں، ایک حقیقت کا اعتراف ہیں۔ اسرائیل کے تمام فوجی اور سیکورٹی منصوبے اْس ایمان کے سامنے ناکام ہیں جو قید میں بھی زندہ رہتا ہے، جو بھوک میں بھی سجدہ نہیں چھوڑتا، اور جو زنجیروں کے بیچ بھی آزادی کا خواب دیکھتا ہے۔ دنیا کی جنگیں اب ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں، نظریات سے جیتی جاتی ہیں۔ فلسطینی مجاہدین نے جس صبر، نظم اور خفیہ تدبیر کا مظاہرہ کیا، اس نے جدید اسرائیلی انٹیلی جنس کو بھی مفلوج کر دیا۔ سرنگوں کے نیچے زندگی کی حفاظت کرنا، قیدیوں کو انسانی احترام کے ساتھ رکھنا، اور پھر انہیں معاہدے کے تحت سالم واپس کرنا، یہ صرف عسکری نہیں بلکہ اخلاقی برتری کا ثبوت ہے۔
یہی اصل معجزہ ہے کہ ظلم کی تاریکی میں بھی روشنی بجھتی نہیں۔ فلسطینی قیدی جب آزادی کی ہوا میں سانس لیتے ہیں تو دنیا کے ہر باضمیر انسان کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو قید میں بھی آزاد رہے، اور آزادی میں بھی عاجز۔ یہ لمحہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک دعوتِ فکر ہے کہ ایمان، نظم، اور صبر کی قوت اگر حماس جیسے گروہ میں زندہ ہے تو کیوں نہیں وہی جذبہ ہماری پوری امت میں بیدار ہو؟ یہ رہائی دراصل ایک اعلان ہے کہ فتح کبھی صرف توپ اور ٹینک سے نہیں آتی، بلکہ ایمان، عزم، اور صبر کے سنگم سے جنم لیتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر فلسطین اب صرف ایک خطہ نہیں رہا، وہ ایک نظریہ ہے؛ جو ہر اس انسان کے دل میں زندہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا جانتا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کے قیدی بھی فاتح ہیں، جس کی ماؤں کے آنسو بھی دعا بن جاتے ہیں، اور جس کے بچے بھی دنیا کو آزادی کا مطلب سکھا رہے ہیں۔ قید کے پار روشنی صرف فلسطینیوں کی نہیں، انسانیت کی داستان ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو ظلمت میں بھی بجھتی نہیں کیونکہ یہ روشنی ایمان سے جلتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی جیلوں فلسطینی قیدی فلسطینی قید قیدیوں کو ایمان کی صرف ایک کیا گیا میں بھی کے لیے
پڑھیں:
رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں
دنیا میں کچھ وادیاں صرف زمین کے ٹکڑے نہیں ہوتیں، وہ روح میں اتر جانے والے احساسات رکھتی ہیں۔ ان کی فضاؤں میں ایک ایسی لطافت گھلی ہوتی ہے جو انسان کو لمحوں میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
پاکستان کے شمال میں، چترال کے دل میں بسی کیلاش ویلی بھی ایسی ہی وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں قدم رکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے دریا نے اپنا بہاؤ کچھ دیر کے لیے روک دیا ہے، اور انسان کسی قدیم، معصوم اور غیرمسخ شدہ دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔
یہ وادی نہ صرف اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ اس تہذیب کے لیے بھی جس کے رنگ، نغمے اور رسومات آج بھی اپنی اصل حالت میں سانس لے رہی ہیں۔ کیلاشی لوگ ایک ایسی دنیا کی یاد دلاتے ہیں جہاں زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بہتی تھی، جہاں موسم صرف موسم نہیں بلکہ ایک تہوار تھے، اور جہاں رقص اور موسیقی محض تفریح نہیں بلکہ روحانی زبان تھی۔
کیلاش ویلی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اونچے دیودار کے درخت، لکڑی کے روایتی گھر، چھتوں پر سوکھتے اخروٹ اور ندیوں کا گنگناتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ یہ منظر انسان کو بتاتا ہے کہ یہاں سہولت نہیں، سادگی ہے؛ مصنوعی روشنی نہیں، قدرت کا نور ہے؛ جدید شور نہیں، ہوا کی موسیقی ہے۔
وادی کا ہر پاسہ ایک الگ کہانی کہتا ہے۔ گاؤں کے درمیان سے گزرتے تنگ راستے، پتھروں سے بنے چھوٹے پل، اور پیچھے سے جھانکتی برف پوش چوٹیوں کا منظر، سب مل کر ایسا احساس پیدا کرتے ہیں جیسے انسان کسی داستانوی دنیا میں سانس لے رہا ہو۔
لیکن کیلاش کی اصل پہچان وہ لوگ ہیں جو اس وادی میں بستے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنی زبان، لباس اور رسومات کو نسلوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ ہر آنے والے تبدیلی کے طوفان کا مقابلہ بھی اپنی تہذیبی خوداعتمادی کے ساتھ کرتی ہے۔
کیلاشی خواتین، چلتے پھرتے رنگوں کے مجسمےاگر کیلاش کی سڑکوں پر کسی مسافر کی نظر سب سے پہلے کسی چیز پر ٹکتی ہے تو وہ یہاں کی خواتین ہیں۔ ان کا رنگین لباس، سیاہ چادر پر موتیوں اور دھاگوں کی کڑھائی، اور ہاتھ سے تیار کی گئی روایتی ٹوپی، جسے ’سُسٹر‘ کہا جاتا ہے، دیکھنے والے کو محوِ حیرت کر دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ایسی مسکراہٹ جو ان کی آزاد فطرت، مضبوط شناخت اور خوشی کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ خواتین صرف لباس کے ذریعے رنگ نہیں بکھیرتیں، بلکہ اپنی گفتگو، نغموں اور طرزِ زندگی سے بھی ایک روشن احساس پھیلاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح ان کی سادگی، مہمان نوازی اور خالص انسانیت سے بےحد متاثر ہوتے ہیں۔
کیلاش میں سال بھر ثقافتی تہواروں کی رونق لگی رہتی ہے۔ یہ تہوار صرف رسومات کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ زندگی کے ساتھ ان کا ایک جذباتی اور روحانی رشتہ ہے۔
چلم جوشٹیہ تہوار موسمِ بہار کے استقبال کا جشن ہے۔ جب پھول کھلنے لگتے ہیں، پہاڑ سبز چادر اوڑھ لیتے ہیں، تو کیلاشی لوگ رقص، موسیقی اور اجتماعی دعا کے ساتھ فطرت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اوچالگرمیوں کا تہوار جو فصل کی کٹائی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی تقریب ہے جس میں گیت گائے جاتے ہیں اور مقدس مقامات پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔
پوٹھ (چترمس ماس)یہ سردیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس میں رات بھر آگ کے گرد رقص ہوتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں اور لوگ اپنی پرانی روایات کو تازہ کرتے ہیں۔
ان تہواروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بزرگ سب ایک ہی دائرے میں مل کر رقص کرتے ہیں، ایک ہی زبان میں خوشی مناتے ہیں۔ شاید یہی اجتماعی احساس انہیں دنیا کی زندہ تہذیبوں میں ممتاز بناتا ہے۔
دنیا کے کئی خطوں میں ایسی تہذیبیں آباد ہیں جو آج بھی اپنی روایتی شکل میں قائم ہیں۔ کیلاش ان میں سے ایک ہے، مگر یہ واحد نہیں۔ دنیا کے مختلف خطے جاپان، امریکہ، سائبیریا، جنوبی امریکہ اور افریقہ جیسی قوموں کا مسکن ہیں جو جدید دنیا کی برق رفتار ترقی کے باوجود اپنی شناخت سے جڑی ہوئی ہیں۔
جاپان کے آئینو لوگآئینو لوگ ایک منفرد ثقافت کے حامل ہیں۔ ان کی اپنی زبان، لباس، رسمیں اور دیومالائی کہانیاں ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی رقص، موسیقی اور فطرت کے احترام کو اپنی روح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ثقافتوں میں موسموں کی تبدیلی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور تہوار فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کی علامت ہیں۔
نیٹیو امیریکن قبائلریڈ انڈینز کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ ان کے پاوٹا ڈانس، ڈرم بیٹس، ڈریم کیچر، اور قبائلی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی زمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعی رقص اور گیتوں میں بھی وہی روحانی کیفیت پائی جاتی ہے جو کیلاش کے تہواروں میں نظر آتی ہے۔
پیرو کے انڈین قبائلایمیزون کے جنگلات اور انڈیز کے پہاڑوں میں بسنے والے قبائل اپنی رنگین روایات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے تہواروں میں بھی فصل کی خوشی، سورج کی عبادت، اور موسم کے احترام کا جذبہ جھلکتا ہے۔ ان کا لباس، ماحولیاتی عقائد اور رنگوں سے محبت کیلاش سے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔
افریقہ کے ماسائی لوگماسائی قبائل اپنے سرخ لباس، موتیوں والے زیورات اور ’جمپ ڈانس‘ کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ رقص ان کے لیے صرف جسمانی مشق نہیں بلکہ شناخت، دعا اور طاقت کا استعارہ ہے۔ یہی کیفیت کیلاش میں بھی ملتی ہے—جہاں رقص ایک زبان ہے، ایک عبادت ہے، ایک اجتماعی بندھن ہے۔
سائبیریا کے شمان قبائلسائبیرین شمان ازل سے روحانیت، ڈھول اور قدرتی طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی سخت موسموں کے باوجود برقرار ہے۔ کیلاش کی طرح وہ بھی اپنی میراث کو زمانے کے دباؤ سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں قومیں بتاتی ہیں کہ اپنی شناخت پر قائم رہنے کا جذبہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔
کیوں زندہ تہذیبیں انسانیت کا سرمایہ ہیں؟آج کی دنیا میں جن معاشروں نے اپنی روایات کو قربان کر کے جدیدیت کو گلے لگایا ہے، وہ بےشک ترقی یافتہ ہیں مگر اکثر اپنی اصل خوشبو کھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف کیلاش، آئینو، ماسائی، نیٹیو امیریکن اور دیگر زندہ ثقافتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ترقی اور روایت ایک ہی راستے پر ساتھ چل سکتے ہیں۔ اہم بات توازن ہے۔
یہ زندہ تہذیبیں ہمیں بتاتی ہیں کہ:
فطرت محض نظارہ نہیں، ایک تعلق ہے
رقص صرف جسمانی ادا نہیں، دل کی زبان ہے
تہوار صرف رسمیں نہیں، اجتماعی روح ہیں
ثقافت ماضی کی داستان نہیں، حال کی سانس ہے
شناخت چھوڑے بغیر بھی انسان مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے
دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی تنوع میں ہے، اور زندہ روایتی ثقافتیں اس تنوع کے رنگوں کو زندہ رکھنے والی روشنی ہیں۔
کیلاش ویلی دنیا کے لیے صرف سیاحتی مقام نہیں، بلکہ ایک درسگاہ ہے۔ یہ وادی ہمیں بتاتی ہے کہ خوشی سادگی میں ہے، ہم آہنگی فطرت میں ہے، اور شناخت محبت میں ہے۔ اس وادی کی تہذیب نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ایسا ثقافتی خزانہ ہے جسے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
کیلاشی لوگ اپنی زبان، مذہب، رسومات، لباس اور موسیقی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب ان کی پہچان ہے، اور پہچان چھوڑ دینے والی قومیں کبھی مضبوط نہیں رہتیں۔
کیلاش صرف پہاڑوں کے درمیان چھپی ایک وادی نہیں، بلکہ ایک زندہ احساس ہے۔ ایک ایسا احساس جو انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی فطرت، محبت، دعا، جشن اور انسانیت میں ہے۔ یہ وادی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ثقافت وہ چراغ ہے جس کی روشنی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے، اور جب تک یہ چراغ جل رہا ہے، انسان اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے جڑا رہتا ہے۔
دنیا کے مختلف گوشوں میں بسی ایسی ثقافتیں چاہے آئینو ہوں، ماسائی ہوں، انڈین قبائل ہوں یا نیٹیو امیریکن سب ایک ہی پیغام دیتی ہیں:
انسان اپنی اصل بھولے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے،
اور اپنی روایتوں کو بچا کر بھی دنیا کی دوڑ میں شامل رہ سکتا ہے۔
کیلاش زندہ ہے، اور اس کا زندہ رہنا ہم سب کے لیے امید کی وہ کرن ہے جس سے دنیا کی ثقافتی رنگینی ہمیشہ باقی رہے گی۔
تحریرو تحقیق سیدہ سفینہ ملک
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں