مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا حصہ نہیں بنے گی، راجہ فاروق حیدر
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا حصہ نہیں بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرچکی ہے، اور اس فیصلے میں تبدیلی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر کی سیاست میں ہلچل، آنے والے دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے؟
اس سے قبل صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر شاہ غلام قادر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر اپنے بنیادی نصب العین کے مطابق تحریکِ آزادیٔ جموں و کشمیر، آزاد خطے کے عوام، مہاجرینِ مقیم پاکستان اور بیرونِ ملک بسنے والے کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے عبوری آئین ایکٹ 1974 کے تحت اپنا جمہوری اور سیاسی کردار پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر اور مہاجرینِ مقیم پاکستان میں اپنے نظریات، سیاسی کردار اور عوامی خدمت کی بدولت ایک مقبول اور منظم جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر اپوزیشن راجا فاروق حیدر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن راجا فاروق حیدر مسلم لیگ
پڑھیں:
بی جے پی کا میرٹ پر حملہ: کشمیری مسلم طلبہ کے داخلوں پر مذہبی اعتراضات
ہندو توا کی سوچ نے ایک بار پھر میرٹ کے معیار کو پس پشت ڈال دیا اور بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے کٹرہ میں واقع ماتا ویشنو دیوی میڈیکل کالج میں جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے کشمیری مسلم طلبہ کے داخلوں پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ہندو قوم پرست جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ ایک مذہبی زیارت گاہ کی آمدنی سے چلنے والے مذکورہ کالج کو ’ہندو روحانی شناخت‘ کی عکاسی کرنی چاہیے۔
بی جے پی کے کچھ ارکان اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ درگاہ بورڈ ایکٹ میں ترمیم کی جائے تاکہ داخلوں کے معیار میں اس ’مذہبی پہلو‘ کو بھی شامل کیا جاسکے۔ ناقدین کے مطابق یہ مطالبہ صرف انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ ایک خطرناک سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہندو زائرین کے چندوں سے چلنے والا ادارہ مسلمانوں کو میرٹ کی بنیاد پر بھی قبول نہ کرے۔
اس اعتراض نے واضح کردیا ہے کہ بی جے پی اور اس کے حامی گروہوں کے نزدیک میرٹ کی اہمیت مذہبی شناخت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے خطے میں جہاں پہلے ہی مسلم اکثریتی آبادی کی زمینیں، ملازمتیں اور شہری حقوق بتدریج محدود کیے جارہے ہیں، وہاں ہندو چندے سے بنے کالج میں مسلم طلبہ کے داخلے پر احتجاج ایک دوغلا معیار ظاہر کرتا ہے۔
شدت پسند گروہوں کا یہ مؤقف ہے کہ ہندو عطیات سے چلنے والے ادارے میں مسلم طلبہ کی زیادہ تعداد قابلِ قبول نہیں اور بیانیہ اس سوچ کا حصہ ہے جس کے ذریعے تعلیم جیسی بنیادی سہولت کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جارہا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس بحث کا اصل مقصد ادارے کے کردار کو روحانی قرار دے کر اسے عملی طور پر ایک مذہبی ریزرویشن میں تبدیل کرنا ہے جو نہ صرف میرٹ کی نفی ہے بلکہ کشمیریوں کو ایک مرتبہ پھر حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش بھی ہے۔
یہ تنازع اس بات کا تازہ ثبوت ہے کہ کس طرح ہندوتوا نظریہ تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری ثابت کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، خصوصاً ایک ایسے متنازع خطے میں جہاں طاقت کے استعمال اور سماجی دباؤ کے ذریعے حقِ تعلیم تک رسائی بھی سیاسی احتجاج کا نشانہ بن رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں