سپارکو کا جیو اے آئی فاریسٹری تربیتی کورس، جنگلات کے تحفظ میں جدید ٹیکنالوجی پر توجہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے “جیو-اے آئی برائے جنگلاتی معلومات: ریموٹ سینسنگ اور جیو انفارمیشن سسٹمز کی جدید ایپلی کیشنز برائے جنگلات” کے موضوع پر بین الاقوامی تربیتی کورس کا انعقاد کیا ہے۔ یہ کورس 27 تا 31 اکتوبر 2025 تک سپارکو کمپلیکس، کراچی میں منعقد ہوگا۔
کورس کا مقصد ازنیٹ کے رکن ممالک کے ماہرین کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ مصنوعی ذہانت اور جغرافیائی معلوماتی ٹیکنالوجی (GIS) کو جنگلات کی مؤثر نگرانی، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار زمین کے انتظام میں استعمال کرسکیں۔ اس پروگرام میں عراق، اردن، لیبیا، تیونس، ایران اور پاکستان کے ماہرین شرکت کریں گے۔
تربیت لیکچرز، عملی مظاہروں اور مشقوں کے ذریعے دی جائے گی، جس سے شرکاء جیو-اے آئی فریم ورک کے تحت ماحولیاتی ڈیٹا کے تجزیے اور فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
سپارکو کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ازنیٹ کی ان مسلسل کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد خلا پر مبنی ایپلی کیشنز کے ذریعے ماحولیاتی استحکام اور موسمیاتی لچک کو فروغ دینا اور بین الاقوامی تعاون و علم کے تبادلے کو مضبوط کرنا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
زراعت پر توجہ نہ دی تو خوراک کا بحران ہو سکتا ‘ محمد اسماعیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (پ ر) خدمت گوپانگ فائونڈیشن پاکستان کے چیئرمین سردار محمد اسماعیل خان گوپانگ نے کہا ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کی ترقی کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ حالیہ سیلاب نے ملک بھر میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا‘ اس صورت حال میں کسان پریشان ہیں۔ اِن دنوں ٹماٹر کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے‘ اس کی وجہ بھی فصل کی قلت ہے۔ مستقبل میں ایسے حالات سے بچنے کے لیے سدباب کرنا ہوگا۔ کسان کی خوشحالی کیلیے صوبائی اور وفاقی حکومت نے زرعی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کو المیہ کہیں یا کچھ اور کہ زرعی تحقیقاتی خبروں کو میڈیا پر مناسب کوریج نہیں ملتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے دفتر میں پنجاب کے دورے سے واپسی پر سینئر صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات میںکیا۔ اِس موقع پر محمد اسماعیل گوپانگ نے ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے لیے جاری امدادی کاموں اور مچھر مار اسپرے مہم سے بھی اُنہیں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کا زیادہ دار و مدار زرعی ترقی پر ہے، دنیا بھر میں زرعی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس کیلیے 25 فیصد جی ڈی پی کا حصہ رکھا جاتا ہے، پاکستان میں یہ 4 فیصد ہے جو بہت کم ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں 42 فیصد بچوں کا قد اور وزن عمر کے حساب سے نہیں بڑھتا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ خوراک کی کمی اور صاف پانی نہ ملنا ہے۔ انہوں نے کہا گندم و ٹماٹر کی قلت پر سندھ زرعی یونیورسٹی اور کپاس کی قلت پر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کی مدد سے قابو پانا ہوگا۔ وفاقی حکومت اس جانب خصوصی توجہ دے۔ مستقبل میں خوراک کی قلت سے بچنے کے لیے زرعی تعلیم پر خصوصی فنڈ مختص کرنے ہوں گے۔