ریاض میں بین الاقوامی سائبر سیکیورٹی ایونٹ کا انعقاد، پاکستانی ماہرین کی شاندار شرکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
ریاض میں منعقدہ بلیک ہیٹ MEA 2025 کا 3 روزہ بین الاقوامی سائبر سیکیورٹی ایونٹ غیر معمولی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں اس سال عالمی سطح پر 100,000 سے زائد شرکا، 300 اسپیکرز اور 500 عالمی برانڈز نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ریاض سے دوحہ کا سفر 2 گھنٹے میں، سعودیہ اور قطر کے درمیان ہائی اسپیڈ ریل لنک کے معاہدے پر دستخط
یہ ایونٹ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کا سب سے بااثر سائبر سیکیورٹی پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں عالمی تحقیق، جدید ٹیکنالوجیز اور نئے سیکیورٹی ماڈلز مستقبل کی سمت متعین کرتے ہیں۔
ایونٹ میں پاکستان نے اپنی تاریخ کی سب سے مضبوط نمائندگی پیش کی۔ پاکستان پویلین نے بین الاقوامی مندوبین کی بھرپور توجہ حاصل کی جبکہ پاکستان سے آئے ہوئے ماہرین اور سیکیورٹی لیڈرز کو خصوصی طور پر اسٹیج پر مدعو کیا گیا جن میں سید عبدالقادر اور حیدر عباس شامل تھے۔
انہیں عالمی سائبر سیکیورٹی ڈیفنس، پالیسی، اور ٹیکنالوجی انوویشن کے موضوعات پر اظہارِ خیال کے لیے خصوصی اعزاز کے ساتھ مدعو کیا گیا۔
پاکستانی وفد کی قیادت سید عبدالقادر۔ حیدر عباس، فیض احمد شجاع، اہرار نقوی نے کی جبکہ اس پورے دورے کی مؤثر میزبانی عدنان رفیق احمد نے کی۔
اس کے علاوہ پاکستان ایمبیسی کے معزز حکام اور ریاض میں موجود ممتازچیف ایگزیکٹیوز نے شرکت کی ۔ ایونٹ کی مربوط اور اعلیٰ سطح کی کوآرڈینیشن عبدالباری شعیب اور International Exhibition Management نے کی جس نے پاکستان کی نمائندگی کو عالمی معیار کے مطابق منفرد بنایا۔
مزید پڑھیے: پی آئی اے کے بین الاقوامی نیٹ ورک میں توسیع، کراچی سے ریاض نئی پرواز شامل
اس سال مختلف ممالک کے شرکا نے بلیک ہیٹ MEA میں پاکستانی پویلین کا دورہ کیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ اور مہارت کو خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔
شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے سائبر سیکیورٹی ماہرین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی اسٹیج پر بھی اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں۔ سائبر ڈیفنس، ریسرچ، اے آئی سیکیورٹی اور انسیڈنٹ رسپانس کے شعبوں میں پاکستانی پروفیشنلز کی بڑھتی ہوئی مہارت اس ترقی کی عکاس ہے۔
بلیک ہیٹ MEA محض ایک ایونٹ نہیں بلکہ عالمی تعاون اور مشترکہ سیکیورٹی کا پلیٹ فارم ہے جہاں پاکستان کا کردار تیزی سے مضبوط ہو رہا ہے۔
جیسے جیسے عالمی خطرات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے، ویسے ویسے مشترکہ دفاع، انفارمیشن ایکسچینج اور ریجنل تعاون کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: ریاض میٹرو نے اہم سنگ میل عبور کرلیا، گنیز ورلڈ ریکارڈ میں نام درج
پاکستان کی اس تاریخی شرکت نے ثابت کر دیا کہ ملک کا سائبر سیکیورٹی سیکٹر اب عالمی گفتگو کا ایک فعال اور مؤثر حصہ بن چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
International Exhibition Management MEA 2025 بین الاقوامی سائبر سیکیورٹی ایونٹ ریاض سعودی عرب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریاض سائبر سیکیورٹی بین الاقوامی
پڑھیں:
بھارت کا پاکستان مخالف بیانیہ: سیکیورٹی تشویش یا سیاسی حکمتِ عملی؟
بھارتی وزیرِ دفاع کا سندھ کو بھارت میں ضم کرنے کا بیان اور اس کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات، نہ صرف بھارت کی پاکستان کے بارے میں ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بھارت کس حد تک اپنی داخلی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان دشمنی پر انحصار کرتا ہے۔
مئی کی جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں واضح ناکامی کے بعد سے بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ مسلسل نمایاں رہی ہے اور اس معاندانہ رویے میں وہ افغان طالبان جیسی رجعت پسند قوتوں کی پشت پناہی سے بھی دریغ نہیں کر رہی۔
داخلی سیاست اور پاکستان مخالف بیانیہبھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداران کے پاکستان مخالف بیانات اس امر کی علامت ہیں کہ ہندو انتہا پسند سیاسی بیانیے کی بقا پاکستان دشمن جذبات کو ہوا دینے سے جڑی ہوئی ہے۔
تقسیمِ ہند کو ایک غلطی قرار دینا، اکھنڈ بھارت کی باتیں کرنا اور سخت زبان استعمال کرنا محض وقتی ردِعمل نہیں بلکہ بھارت کی ایک منظم اور طویل المدتی سیاسی اور سفارتی حکمتِ عملی ہے۔
پاکستان کو غیر مستحکم ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوششگزشتہ چند برسوں میں بھارتی بیانیہ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے جس میں پاکستان کو ایک غیر مستحکم اور مسائل زدہ ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ بھارت خود کو ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ واقعی بھارت کے جائز سیکیورٹی خدشات کا عکس ہے یا محض داخلی سیاست اور خارجی مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ؟
بھارت پر عالمی اداروں کی تنقیدعالمی تنظیموں کی رپورٹس بھارت کی پیش کردہ تصویر سے مختلف حقیقت بیان کرتی ہیں، ہیومن رائٹس واچ نے خاص طور پر جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو تشویشناک قرار دیا ہے جبکہ امریکی محکمۂ خارجہ اور دیگر تنظیموں نے ماورائے عدالت قتل، پریس کی آزادی پر قدغنوں، مذہبی اقلیتوں پر دباؤ اور مخالف آوازوں کو کچلنے جیسے اقدامات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
مزید یہ کہ حالیہ برسوں میں امریکا اور کینیڈا کی جانب سے بھی بھارت پر دہشت گرد سرگرمیوں سے متعلق الزامات سامنے آئے، جبکہ پاکستان افغانستان میں بھارتی کردار سے متعلق شواہد عالمی فورمز پر پیش کر چکا ہے۔
بھارتی اعلیٰ عہدیداران کے حالیہ بیانات اور پاکستانی ردِعملچند روز قبل بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے ایک بار پھر پاکستان پر الزامات دہراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے۔
اس کے جواب میں پاکستانی دفترِ خارجہ نے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے ان بیانات کو اشتعال انگیز، بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
پاکستان نے واضح کیا کہ اس کے تمام ریاستی ادارے، بشمول مسلح افواج، قومی سلامتی کے مضبوط ستون ہیں اور مئی 2025 کے تنازعے میں پاکستانی افواج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت اور دفاعی عزم کا عملی مظاہرہ کیا۔
سندھ سے متعلق بیان اور علاقائی کشیدگیبھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے سندھ کے حوالے سے بیان نے خطے میں تشویش کی نئی لہر کو جنم دیا، پاکستان کی سیاسی اور حکومتی قیادت نے اسے سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس قسم کے بیانات نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرناک ہیں بلکہ بھارتی قیادت کی جارحانہ سوچ کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔
تقسیمِ ہند، نظریاتی کشمکش اور اکھنڈ بھارتتقسیمِ ہند بھارتی سیاسی و نظریاتی سوچ میں آج بھی ایک حساس مسئلہ ہے، پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوا، جو بھارتی سیکولر نیشنلزم کے دعووں کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے۔
اس لیے پاکستان کے داخلی مسائل کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تقسیم ایک غلط فیصلہ تھا، حالانکہ یہ بیانیہ اصل میں حال اور مستقبل کی سیاست سے جڑا ہے، نہ کہ تاریخ سے۔
پاکستان کی داخلی صورتحال بطور ہتھیارپاکستان میں سیاسی عدم استحکام، سول-ملٹری تعلقات اور حکومتوں کی تبدیلی جیسے معاملات کو بھارتی بیانیے میں بطور دلیل استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کو کمزور اور بھارت کو قدرتی علاقائی رہنما کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
اس حکمتِ عملی سے بھارت کو سفارتی محاذ پر فائدہ ضرور ملتا ہے، مگر خطے کے مجموعی امن کو نقصان پہنچتا ہے۔
دہشت گردی کا بیانیہ اور سیاسی مفاداتدہشتگردی کا الزام بھارتی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون بنتا جا رہا ہے، جے شنکر اور دیگر رہنما مسلسل اس موقف کو دہراتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی سطح پر جوابدہ ہونا چاہیے، یہ بیانیہ اکثر اس وقت زور پکڑتا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یا بھارت کے اندر اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تنقید بڑھتی ہے، جس کے ذریعے عالمی توجہ کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔
قوم پرستی، انتخابی سیاست اور بیرونی دشمنداخلی سیاست کے تناظر میں پاکستان مخالف بیانیہ بھارتی حکمران جماعتوں کے لیے ایک آزمودہ ہتھیار ہے، راج ناتھ سنگھ سمیت دیگر رہنماؤں کے سخت بیانات قوم پرستانہ جذبات کو تقویت دیتے ہیں اور انتخابی موسم میں معاشی اور سماجی ناکامیوں سے عوامی توجہ ہٹانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
عالمی سطح پر فوائد اور علاقائی نقصاناتبین الاقوامی سطح پر خود کو دہشت گردی کا شکار اور پاکستان کو مسئلہ ریاست بنا کر پیش کرنا بھارت کو وقتی اسٹرٹیجک فوائد تو دیتا ہے، مگر اس طرزِ فکر سے خطے میں اعتماد سازی کے امکانات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ صورتِ حال اُس وقت زیادہ ابتر ہو جاتی ہے، جب دنیا میں عالمی فورمز پر بھارت کے خلاف دہشتگردوں کی حمایت کے ٹھوس ثبوت پیش کیے جاتے ہیں۔
بیانیے کی سیاست اور جنوبی ایشیا کا مستقبلیہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت کو بعض جائز سیکیورٹی خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، مگر جب ان خدشات کو مسلسل سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے تو امن کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔
بھارت کا پاکستان مخالف بیانیہ اب محض سلامتی تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ داخلی سیاست، نظریاتی کشمکش اور عالمی سفارتی مفادات کا مجموعہ بن چکا ہے، اصل سوال یہ نہیں کہ یہ بیانیہ کیوں موجود ہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا اس کے ذریعے جنوبی ایشیا میں امن ممکن ہو پائے گا یا کشیدگی مزید گہری ہوتی جائے گی؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اکھنڈ بھارت بھارت پاکستان جے شنکر دہشتگردی راج ناتھ سنگھ سیکولر مقبوضہ کشمیر