کالعدم سپاہ صحابہ کو دوبارہ میدان میں اتارنے کا فیصلہ؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ سید ناظر عباس تقوی کا کہنا تھا کہ لگتا ایسا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کے باپ کو کھولا جا رہا ہے اور دہشتگردی کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں کھڑے ہو کر ایک کتا میرے مکتب کی، میرے مسلک کی توہین کرتا ہے، زبان درازی کرتا ہے اور میرے مسلک کو گالیاں بکتا ہے، لیکن پاکستان میں نہ حکومت ہے اور نہ پاکستان میں کوئی ایک ادارہ کہ جو اس کتے کی زبان کو روکے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس
گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ہاکی گراونڈ میں کالعدم فرقہ پرست اور دہشتگرد جماعت سپاہ صحابہ کے زیراہتمام ایک جلسہ منعقد ہوا، جس میں مولانا احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی اور معاویہ اعظم سمیت کالعدم جماعت کے صف اول کے رہنماء شریک ہوئے اور اپنے خطابات میں انتہائی غلیظ اور شرانگیز زبان استعمال کرتے ہوئے مکتب اہلبیتؑ، برادر اسلامی ملک ایران اور انقلاب اسلامی کو نشانہ بنایا۔ کالعدم جماعت کے ان رہنماوں نے ایسی تقاریر کیں کہ جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ کسی آزاد و مہذب ملک کے وفاقی دارالحکومت میں نہیں، بلکہ کسی جنگل میں کھڑے ہوکر ریاست کی رٹ کو للکار رہے ہیں، تاہم افسوس کہ حکومت کی جانب سے فرقہ پرست جماعت کو شرپسندی اور فرقہ واریت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ اس جلسہ کے بعد سے یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اس کالعدم فرقہ پرست جماعت کو شائد جان بوجھ کر کسی خاص مقصد کے تحت ایک مرتبہ پھر میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس جلسہ میں استعمال ہونے والی غلیظ زبان پر شیعہ رہنماوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، معروف سماجی و مذہبی رہنماء سیدہ گل زہرا رضوی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پچھلے دو برس سے کالعدم سپاہ صحابہ کی ایکٹیوٹی نہ ہونے کے برابر تھی، صاف نظر آرہا تھا کہ ان کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ ان کے جلسے اول ہوتے نہ تھے اور اگر ہوتے بھی تو تقاریر ناپ تول کر ہوتی تھیں۔ اب انہوں نے پرانی روش و رویہ اختیار کر لیا ہے۔ حالیہ اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ اس کا شاہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ افغانستان کے خلاف انہیں استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو یہ غلطی ہوگی، وہی جو 90ء میں اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے حوالے سے ہوئی تھی۔ اگر آپ انہیں تحریک لبیک کا خلا پر کرنے کے لئے واپس لا رہے ہیں، یہ اس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ غلطیاں مت کریں، اب کچھ ٹھیک ہونے لگا ہے پاکستان میں، اسے دوبارہ بیس سال پیچھے کے دور میں نہ دھکیلیں۔
شیعہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ سید راشد رضوی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے اندر ایک کالعدم جماعت جو یہ جلسہ کر رہی ہے تو کس نے اجازت دی ہے۔؟ کیسے کر رہی ہے۔؟ کس قانون کے تحت کر رہی ہے۔؟ کس آئین کے تحت کر رہی ہے۔؟ اگر ریاست نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے، پارلیمنٹ نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے، تو کیا کاغذ کے اندر کالغدم قرار دیا گیا ہے۔؟ جلسے کے اندر فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی تقریریں جس سے ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے، شیعہ، سنی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ شیعہ، سنی آپس میں بھائیوں کے طریقے سے پاکستان کے اندر رہتے ہیں، کسی قسم کا کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہے۔ پاکستان دہشتگرد کا شکار ہے۔ شیعہ، سنی جھگڑے کا کوئی شکار نہیں ہے، لیکن کالعدم جماعتیں پاکستان کے اندر ایک ماحول بنانے کی کوشش کرتی ہیں، جس کے نتیجے کے اندر شیعہ، سنی کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتی ہیں، جس میں یہ پچھلے بہت سارے سالوں سے ناکام ہوئے ہوئے ہیں۔ بہرحال ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کالعدم جماعتوں کو اسلام آباد کے اندر جلسے کرنے کی اجازت نہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ یہ جلسے کروا رہے ہیں تو انٹرنیشنلی کیا میسج جا رہا ہے کہ آپ ان کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔؟ انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔؟ آئی جی اسلام اباد جواب دیں اور وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب آپ کی ناک کے نیچے یہ جلسہ ہوا ہے، آپ جواب دیں، آپ بتائیں کس قانون کے تحت آپ نے اس کالعدم جماعت کو ہاکی گراؤنڈ اسلام اباد میں جلسے کی اجازت دی؟ یا تو اس کے اوپر سے پابندی ہٹا دیں، اگر آپ کے یہ لاڈلے بچے ہیں تو ان کے اوپر سے پابندی ہٹا دیں۔ انہیں کھل کر کام کرنے دیں۔ علاوہ ازیں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ سید ناظر عباس تقوی کا کہنا تھا کہ لگتا ایسا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے باپ کو کھولا جا رہا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں کھڑے ہو کر ایک کتا میرے مکتب کی، میرے مسلک کی توہین کرتا ہے، زبان درازی کرتا ہے اور میرے مسلک کو گالیاں بکتا ہے، لیکن پاکستان میں نہ حکومت ہے اور نہ پاکستان میں کوئی ایک ادارہ کہ جو اس کتے کی زبان کو روکے۔
علامہ ناظر عباس نے مزید کہا کہ یہ پاکستان بڑی مشکل سے دہشت گردوں کے جال سے نکلا ہے، بڑی مشکل سے پاکستان کے اندر امن و امان قائم ہوا ہے، دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، لیکن لگتا ہے کہ پھر دوبارہ دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور اسلام آباد کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر یا تو مجھے گالیاں دی گئی ہیں یا مجھے گالیاں دلوائی گئی ہیں۔ برادر اسلامی ملک ایران کو اور انقلاب اسلامی ایران کو گالیاں بکتا ہے، ان کو دہشت گرد کہتا ہے، جس سے پاکستان اور ایران کی دیرینہ دوستی متاثر ہوتی ہے، جس سے پاکستان ایران کے درمیان جو بہترین تعلقات ہیں، وہ متاثر ہونے کے خدشات ہیں، لہذا میں حکومت پاکستان سے کہتا ہوں اس کو روکو۔ پاکستان میں تشیع کمزور نہیں ہے، پاکستان میں تشیع طاقتور ہے۔ ہم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے، ہم نے امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقت کو منہ کی دی ہے، پاکستان میں تشیع ایک حقیقت ہے۔ پاکستان میں تشیع ایک طاقتور ملت اور قوم ہے، ہم اس ملک کی فضا خراب کرنا نہیں چاہتے، ہم جب امریکہ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں تو یہ گلی کے آوارہ کتے ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لہذا حکومت کی ذمہ داری ہے، ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ایسی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے ان دہشت گردوں کو روکا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کوئی شیعہ، سنی مسئلہ نہیں ہے، سارے شیعہ، سنی آپس میں ملکر رہتے ہیں، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، یہ واحد گروہ ہے، جو نہ کسی مسلک سے وابستہ ہے، نہ کسی مسلک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمیں اسلام آباد کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر دہشت گرد کہنے والو! میں تم سے سوال کرتا ہوں، آج پاکستان کی سرزمین میں بابو سرٹاپ سے لے کر کراچی کے ساحل تک جتنی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئی ہیں، جتنے خودکش حملے ہوئے ہیں، چاہے وہ ریاستی ادارے پر ہوں، چاہے وہ فوج پر ہوں، چاہے وہ سول لوگوں پر ہوں، چاہے وہ شیعہ اور سنی پر ہوں، ان ساری دہشت گردوں کی کارروائی کے پیچھے تم لوگ شامل ہو یا نہیں؟ یہ پاکستان کی حکومت بھی جانتی ہے، پاکستان کے ریاستی ادارے بھی جانتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کی فضا کو بہتر کیا جائے، ایسے لوگوں کی زبان بندی کی جائے، پابندی لگائی جائے جو سرعام کھڑے ہو کر میرے مذہب کو اور میرے مسلک کو گالیاں دیتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک تمہارے باپ کا نہیں ہے، اس ملک کو بنانے والا قائد اعظم شیعہ ہے، اگر پاکستان میں تمہیں شیعہ اتنے برے لگتے ہیں تو پاکستان بنانے والا شیعہ ہے، پاکستان کو سرمایہ دے کر چلانے والا، آگے بڑھانے والا راجہ محمود آبادی شیعہ تھے، جس کے سرمائے سے پاکستان بچا اور آج ہمارے صبر و تحمل کی وجہ سے پاکستان باقی بھی ہے۔ اگر پاکستان تمہیں اتنا برا لگتا ہے اور اگر تشیع تمہیں اتنی بری لگتی ہے تو جاؤ کسی کنویں میں جا کر غرق ہو جاو لیکن پاکستان کو اور پاکستان میں بسنے والے پرامن شہریوں پر الزام تراشی نہ کرو۔ یہ ملک ہمارا ہے، پاکستان ویسے ہی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، ریاست پاکستان ویسے ہی دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے، ہماری ریاست کے جوان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، لہذا یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں ہے۔ میں حکومت پاکستان سے بھی کہتا ہوں، ریاست پاکستان سے بھی کہتا ہوں اس ماحول کو کنٹرول کرو، یہ کسی کے حق میں بہتر نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان میں تشیع نے مزید کہا کہ اسلام ا باد کے کا کہنا تھا کہ کی کوشش کی جا کالعدم جماعت پاکستان کی کہ پاکستان پاکستان کے سے پاکستان کھڑے ہو کر میرے مسلک کو گالیاں کر رہی ہے جا رہا ہے انہوں نے چاہے وہ نہیں ہے کے اندر رہے ہیں کرتا ہے ہے اور کے تحت پر ہوں ہیں تو
پڑھیں:
پاراچنار، گورنر کاٹیج تقریب کا انعقادا، طلبہ اور اساتذہ میں انعامات تقسیم
ڈپٹی کمشنر ضلع کرم اشفاق احمد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر عابدہ پروین اور ڈاکٹر ہدایت حسین نے کہا کہ تعلیمی میدان میں بہترین کارکردگی کے حامل افراد میں ایوارڈ تقسیم کرنے سے طلبہ اور اساتذہ کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر کاٹیج پاراچنار میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں تعلیمی میدان میں بہترین کارکردگی پر طلبہ اور اساتذہ میں انعامات تقسیم کئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے گورنر کاٹیج پاراچنار میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہان اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔ تقریب میں تعلیمی میدان میں بہترین کردگی کے حامل طلبہ اور اساتذہ میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے ایوارڈز تقسیم کئے گئے۔
اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ضلع کرم اشفاق احمد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر عابدہ پروین اور ڈاکٹر ہدایت حسین نے کہا کہ تعلیمی میدان میں بہترین کارکردگی کے حامل افراد میں ایوارڈ تقسیم کرنے سے طلبہ اور اساتذہ کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی اور ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹس اور اساتذہ کو ایوارڈ دینے جیسی تقریبات مستقبل میں بھی جاری رکھی جائیں گی۔