data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (رپورٹ : میاں منیر احمد) ’’کیا اسرائیل غزہ میں مزید جارحیت سے باز رہے گا؟‘‘ جسارت کے اس سوال کے جواب میں سیاسی رہنمائوں‘ تجزیہ کاروں اور بزنس کمیونٹی اس بات پر متفق ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ اور غزہ میں امن قائم کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور اس کی جانب سے امن معاہدے کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی‘ یہود نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے‘ غزہ میں امن کے لیے حماس کا اب تک رویہ اسرائیل سے بہت بہتر ہے لیکن حماس کے غیر مسلح ہوجانے کے بعد اسرائیل ضرور اس پر دبائو بڑھائے گا‘ حماس نے اسرائیل کی جانب سے اب تک چودہ بار امن معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات رپورٹ کیے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر، سینئر رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ ٹرمپ امن معاہدہ پر صہیونی بدعہدی اور خباثت کی وجہ سے بے یقینی قائم رہے گی‘ حماس کے امن معاہدہ کو تسلیم کرانے کے بعد اب امریکا اسرائیل کی ناجائز سرپرستی ترک کردے اور اِس امر کو تسلیم کرے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن اسرائیل کے ذریعے نہیں آئے گا، امریکا براہِ راست اسلامی ممالک کا اعتماد حاصل کرے‘ وزیراعظم شہباز شریف امریکی صدر ٹرمپ کی تعریف میں توازن قائم نہیں رکھ سکے، بھارتی وزیراعظم مودی بھی اِسی طرح کے عدم توازن کا شکار ہوئے تھے‘ ٹرمپ امن معاہدہ کے بعد پاکستان کے لیے اصل چیلنج فلسطینیوں کے اعتماد کو قائم رکھنا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے عالمی ماحول پیدا کرنا ہے۔ مسلم لیگ (ض) کے صدر، رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے کہا کہ شرم الشیخ میں ہونے والے تاریخی معاہدے پر مصر، ترکیہ، قطر اور امریکا کے دستخط کے ساتھ ہی عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ امن عارضی ہے یا مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہوگا؟ اس سوال کا جواب بھی ان ملکوں کے پاس جو امن معاہدے میں براہ راست شریک رہے ہیں‘ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ امن معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہوگا‘ غزہ امن معاہدے میں مصر کا کردار اہم ہے‘ صدر ٹرمپ نے قطر، ترکیہ اور مصری قیادت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے‘ یہ سب کچھ ہوا ہے‘ قیدیوں کے تبادلے بھی ہوئے ہیں تاہم اسرائیل امن معاہدے کی کیسے پاسداری کرے گا‘ امن معاہدے کی پاسداری کے لیے اس کا کیا لائحہ عمل ہوگا، اس پر ابھی بات نہیں ہوئی‘ اور اس موضوع پر بہت سنجیدہ بات چیت ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما انجینئر افتخار چودھری نے کہا کہ یہودو نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے‘ اسرائیل سے غزہ میں امن کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ممتاز تجزیہ نگار سید جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ امکان ہے کہ اسرائیل اب غزہ میں جارحیت سے باز رہے کیونکہ اس نے پہلے بھی جو جارحیت کی تھی اس میں اسے کئی مسلم ممالک سے غیر اعلانیہ حمایت حاصل نہیں ہوسکی لیکن اسرائیل کے ساتھ بہت سی قوتیں غزہ سے حماس کا خاتمہ چاہتی تھیں یوں ان کی اس مجرمانہ خاموشی نے اسرائیل کو غزہ میں قتل عام کا حوصلہ دیا لیکن اب کچھ ممالک جو شرم شییخ معاہدے کے ضامن ہیں ان کی وجہ سے اور گریٹر اسرائیل خود ان ممالک کی بھی موت ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق ڈی جی قائمہ کمیٹی طارق بھٹی نے کہا کہ اسرائیل کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس نے کبھی کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کی‘ اب دیکھتے ہیں کہ حالیہ سیزفائر کتنے دن چلتا ہے، اگر وہاں عالمی فوج کے دستے تعینات ہوگئے تو امن کی امید کی جاسکتی ہے، مگر یہ بہت محدود وقت کے لیے ہوں گے۔ اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق صدر سجاد سرور نے کہا کہ غزہ امن معاہدہ بظاہر مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کی نئی راہ کھولتا ہے، مگر اس کے پیچھے سفارتی پیچیدگیاں، علاقائی مفادات اور عالمی طاقتوں کی ترجیحات بھی پوشیدہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بیانات سے امن کی خواہش ضرور جھلکتی ہے، لیکن اسرائیل نواز پالیسیوں کے سائے ابھی تک گہرے ہیں۔ مسلم لیگ (ج) کے سربراہ اقبال ڈار نے کہا کہ غزہ امن معاہدے کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر امن کی جانب بڑھتی دکھائی دے رہی ہے‘ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز سے فی الحال خون ریزی کا سلسلہ رک گیا ہے، مگر یہ مستقل امن کی ضمانت نہیں ہے‘ پائیدار امن دراصل مسئلہ فلسطین کے دیرپا اور منصفانہ حل سے ہی ممکن اور مشروط ہے۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سابق ڈی جی ،سابق ایڈیشنل سیکرٹری نسیم خالد نے کہا کہ امکان نہیں ہے کہ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کرے گا‘ حماس اب تک اسرائیل کی جانب سے کی گئی چودہ بار کی خلاف ورزیوں کو رپورٹ کرچکی ہے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئر ممبر اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ فلسطینی قیادت نے اگرچہ بادلِ نخواستہ ہی سہی، دو ریاستی حل کو تسلیم کیا ہے، اصل ضرورت اس پر عمل درآمد کی ہے تاریخ گواہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہولناک حالات کے باوجود بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی فیصلے طے پاتے ہیں‘ صدر ٹرمپ کا عالمی امن کے لیے کردار قابلِ تحسین ضرور ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا اسرائیل کی طرف واضح جھکائو رہا ہے، جو آج بھی برقرار ہے‘ یہی طرزِ عمل ہر امریکی صدر میں دیکھا گیا ہے، جو عالمی امن کے عدم استحکام کا سبب بنتا رہا ہے۔ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ اسرائیلی رویے کی وجہ سے امن معاہدہ خطرے میں ہے‘ ابھی تک تو حماس کا رویہ درست ہے‘ اسرائیل انتظار میں ہے کہ کب حماس غیر مسلح ہوتی ہے اس کے بعد وہ دبائو بڑھائے گا‘ آج عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں ہمدردی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے، بہت سے یورپی ممالک سمیت متعدد ریاستیں فلسطین کو تسلیم کر چکی ہیں۔

میاں منیر احمد گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: معاہدے کی پاسداری امن معاہدے کی کہ اسرائیل اسرائیل کی امن معاہدہ نے کہا کہ کو تسلیم ہے کہ اس کی جانب امن کی کے لیے کے بعد

پڑھیں:

حماس: اسرائیل پر حملوں میں کمی کی یقین دہانی کروادی، غیرمسلح ہونے سے صاف انکار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مستقبل میں اسرائیل پر حملوں میں کمی کی یقین دہائی کروا دی تاہم غیر مسلح ہونے سے صاف انکار کر دیا۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق حماس کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے یقین دہانی کروائی کہ مزاحمتی تنظیم غزہ سے اسرائیل پر مستقبل میں ہونے والے حملوں ک

و روکنے کیلیے اقدامات کرے گی، لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہتھیار ڈالنا تنظیم کیلیے ایسا ہے جیسے اس کی روح چھین لینا۔

حماس رہنما خالد مشعل نے جنگ بندی مذاکرات کے پہلے مرحلے کے اختتام کے ساتھ اس کے تسلسل میں کمی کے خدشات کے درمیان اہم مسائل پر حماس کے مؤقف کی وضاحت کی۔

منگل کو حماس نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے تو جنگ بندی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

خالد مشعل نے مزید بتایا کہ حماس غزہ کیلیے کسی غیر فلسطینی انتظامیہ کو قبول نہیں کرے گی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد بورڈ آف پیس کے ممکنہ ارکان کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

فائنینشل ٹائمز نے منگل کو رپورٹ کیا کہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اس بورڈ کیلیے نامزدگی کو متعدد عرب اور مسلمان ممالک کی مخالفت کے بعد مسترد کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ حماس پہلے ہی ٹونی بلیئر کی شمولیت کی مخالفت کر چکی ہے اور اس کے عہدیدار حسام بدران نے انہیں ناپسندیدہ شخصیت اور نحوست کی علامت قرار دیا تھا۔

حسام بدران کا کہنا تھا کہ انہوں نے فلسطینی کاز، عربوں یا مسلمانوں کیلیے کبھی کوئی بھلائی نہیں کی اور برسوں سے ان کا مجرمانہ اور تباہ کن کردار سب پر عیاں ہے۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • لندن مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس کی میزبانی کرے گا
  • حماس کیجانب سے اسرائیل پر حملوں میں کمی پر مشروط آمادگی مگر غیر مسلح ہونے سے صاف انکار
  • حماس: اسرائیل پر حملوں میں کمی کی یقین دہانی کروادی، غیرمسلح ہونے سے صاف انکار
  • حماس کا اسرائیل پر حملوں میں کمی پر مشروط آمادگی مگر غیر مسلح ہونے سے صاف انکار
  • جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ اسرائیل کیجانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں روکنے تک شروع نہیں ہوسکتا، حماس
  • 2025 کی ٹاپ 5 ایئرپورٹس فہرست جاری، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی برتری برقرار
  • طلال چوہدری کا عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے کا اشارہ
  • غزہ میں جنگی جرائم
  • اسرائیل نے مقبوضہ یلو لائن کو غزہ کی نئی سرحد قراردیدیا
  • حماس کو دوبارہ منظم اور مضبوط نہیں ہونے دیں گے، ’یلولائن‘ اب غزہ کی نئی سرحد ہے: اسرائیل