7 اکتوبر کو ہم مکمل تباہی سے صرف ایک منٹ کے فاصلے پر تھے، اسرائیلی تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران اسرائیلی ماہر نے کہا کہ حزبِ اللہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی شرکت، 1948 کے عرب (اسرائیلی شہریت رکھنے والے عرب) اور ایران کی حمایت کے بغیر اسرائیل کو شکست دینا اور اس کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے حوالے سے جہاد اور سیاسی اسلام امور کے اسرائیلی ماہر نے میڈیا پر گفتگو میں کہا ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو مکمل بربادی کے کنارے تک پہنچا دیا تھا۔ نیوز ون کی ایک رپورٹ کے مطابق عوفر بنستوک، جو جہاد اور سیاسی اسلام کے امور کے ماہر ہیں، انہوں نے پوڈ کاسٹ سے گفتگو میں کہا کہ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر 2023 کو کی گئی کارروائی نے اسرائیل کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا تھا جہاں اس کا سقوط اور مکمل انہدام محض ایک منٹ کے فاصلے پر تھا، اور ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس بات پر بھی تبصرہ کیا ہے کہ حتیٰ کہ اگر وہاں فروغِ امن کے لیے ٹرمپ کے منصوبے پر آٹھ اسلامی و عرب رہنماؤں کے دستخط بھی ہوں تب بھی غزّہ میں اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات کیا ہوں گے۔ اسرائیلی ماہر کے بقول، 7 اکتوبر کو اسرائیل انتہائی کم فاصلے (ان کے بقول "ایک منٹ") پر مکمل طور پر دیوالیہ ہو سکتا تھا، فلسطینیوں کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی کیونکہ فلسطینی اس جدوجہد کو سیاسی تنازعے کے بجائے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی کبھی بھی حماس کو اس کے کیے ہوئے عمل پر براہِ راست موردِ الزام نہیں ٹھہراتے، اُن کی تنقید اس تنظیم پر اس لیے ہوتی ہے کہ حماس نے اکیلے اسرائیل کو ختم کرنے کی کوشش کی، جو اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ حزبِ اللہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی شرکت، 1948 کے عرب (اسرائیلی شہریت رکھنے والے عرب) اور ایران کی حمایت کے بغیر اسرائیل کو شکست دینا اور اس کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کو
پڑھیں:
ایران میں حکومت کی تبدیلی کا خواب
اسلام ٹائمز: سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔ خصوصی رپورٹ:
ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد اپنے تجزیئے میں خود سابقہ اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی محض خواب ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس مرکز کے سابق سربراہ برائے تحقیق و تجزیہ میجر (ریٹائرڈ) ڈینی سیترینووِچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں ایران کے خلاف شکست سے دوچار ہوا۔ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم ایرانی اپوزوزیشن اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے متعلق مکمل مایوسی کا اظہار کیا۔
سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ہم نے سمجھا کہ صرف فضائی بمباری سے ایران کی حکومت کو بدلا جا سکتا ہے، مگر نتیجہ بالکل الٹا نکلا، ایران نے اسی جنگ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سابقہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران میں کوئی حقیقی اپوزیشن موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم مخالفین بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، میں رضا پہلوی کو ایسا شخص نہیں سمجھتا جو ایران واپس جا کر حالات پر قابو پا سکے۔
صہیونی تحقیقی ادارے کا دعویٰ:
انہوں نے ایک تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ نے واضح کر دیا کہ ہم باہر سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا ان کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے 950 ایرانی میزائل بھی اسرائیل پر گرے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS)” کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کی جنگوں میں 1,986 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں 919 فوجی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں غزہ محاذ پر ہوئیں، جہاں 1,724 افراد مارے گئے۔
55 اسرائیلی گرفتار یا لاپتہ ہوئے، جن میں سے 13 کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ 30,135 اسرائیلی زخمی ہوئے، اور 164,500 افراد کو اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، جن میں سے 74,600 غزہ کے اطراف کے رہائشی تھے۔ غزہ سے اسرائیل کی سمت 51 ڈرون داغے گئے، اور اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران 3 لاکھ ریزرو فوجی بلائے۔ مجموعی طور پر 37,500 راکٹ اور میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے، جن میں سے 10,200 صرف غزہ سے تھے۔
مغربی کنارا اور بیت المقدس: 76 اسرائیلی ہلاک اور 565 زخمی ہوئے، جن میں 32 فوجی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے 129 فضائی حملے کیے اور جنین و طولکرم کے کیمپوں کو تباہ کیا یا خالی کروایا۔ مجموعی طور پر 15,456 گرفتاریاں ہوئیں اور 10,496 آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں پتھراؤ اور آتش گیر بموں کے واقعات شامل تھے۔
ایرانی محاذ: رپورٹ کے مطابق جون 2025 کی مختصر جھڑپوں کے دوران 950 ایرانی میزائلوں کے نتیجے میں 33 اسرائیلی ہلاک اور 3,550 زخمی ہوئے۔
لبنانی محاذ: حزب اللہ کی راکٹ اور ڈرون حملوں میں 132 اسرائیلی مارے گئے، 17,300 راکٹ اور 593 ڈرون فائر کیے گئے، جبکہ 68,500 شمالی اسرائیلی باشندے بے گھر ہوئے۔
یمنی محاذ: یمن کی جانب سے داغے گئے 500 میزائل و ڈرون میں سے 70 میزائل اور کئی ڈرون اسرائیل کے اندر گرے، جن کے نتیجے میں کم از کم ایک اسرائیلی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایلات بندرگاہ کی 80 فیصد سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے 19 حملے یمن پر کیے اور 90 اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ رپورٹ مجموعی طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل متعدد محاذوں پر بیک وقت دباؤ کا شکار ہے، اور اندرونی طور پر بھی اس کے سیکورٹی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگی یا نفسیاتی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی ہے۔