پنجاب کی سینئر وزیر برائے ماحولیات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں صوبے میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر، سائنسی اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے  سینئر وزیر نے کہا کہ صوبے بھر میں 41 ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے جا چکے ہیں جبکہ مزید مانیٹرنگ یونٹس اور اے آئی بیسڈ فورکاسٹنگ سسٹم کو فعال بنایا جا رہا ہے تاکہ فضائی آلودگی کی بروقت پیشگوئی اور کنٹرول ممکن ہو۔

ان کے مطابق اس وقت ستر سے زائد مانیٹرنگ اسٹیشنز فعال ہیں اور لاہور، راولپنڈی، ملتان سمیت بڑے شہروں میں فیول ٹیسٹنگ اور گاڑیوں کے ایمیشن چیکنگ پروگرام کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم نے تین لاکھ سے زائد گاڑیوں کو ایمیشن سسٹم کے تحت فٹ کیا ہے تاکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کو کم کیا جا سکے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پچھلے سال اکتوبر میں سموگ کی شدت کے باعث اسکول، ہوٹل اور تعمیراتی سرگرمیاں بند کرنا پڑی تھیں، مگر رواں سال اکتوبر کے اختتام تک ہم نے کچھ بند نہیں کیا، بلکہ بہتر منصوبہ بندی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے حالات کو سنبھالے رکھا۔

انہوں نے کہا کہ سموگ تین ماہ کا موسمی مظہر ہے جس پر مکمل قابو ممکن نہیں، مگر اس کے اثرات میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

سینئر وزیر نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے یو ای ٹی لاہور کے اشتراک سے مقامی سطح پر سموگ گنز کی تیاری شروع کر دی ہے، جو پہلے کینیڈا، بھارت اور دیگر ممالک سے درآمد کی جا رہی تھیں۔ ہم نے سموگ گنز منگوا کر ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھے بلکہ مقامی انجینئرز کو اس ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانے کے لیے منصوبے شروع کیے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سموگ کا تعلق درجہ حرارت کے الٹاؤ اور ہواؤں کے رخ سے ہے۔ جب ہوا مشرق کی سمت سے یعنی بھارت کی طرف سے آتی ہے تو لاہور میں آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ دیوالی کی رات بھی اسی باعث ائیر کوالٹی انڈیکس میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

ان کے مطابق آج لاہور آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست ہے، مگر یہ وقتی صورتحال ہے کیونکہ اگلے ہفتے سے ہواؤں کا رخ تیز ہونے سے فضا میں بہتری متوقع ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ چین کو سموگ پر قابو پانے میں تین دہائیاں لگیں، ہم ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں مگر تیزی سے بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت ناکام ہوئی، دراصل کچھ معاملات عوامی رویوں سے جڑے ہیں۔ اگر شہری حکومت کے ساتھ تعاون کریں تو وزیراعلیٰ مریم نواز کا ’صاف پنجاب‘ ویژن جلد مکمل ہو جائے گا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ماحولیاتی تحفظ ادارہ (ای پی اے) اب فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ای پی اے فورس بھٹوں کی نگرانی کر رہی ہے، کسی بھٹے سے کالا دھواں نہیں نکلنے دیا جا رہا، جہاں خلاف ورزی ہو، فوراً کارروائی ہوتی ہے۔ان کے مطابق پٹرول پمپس پر فیول ٹیسٹنگ کا عمل بھی جاری ہے، جہاں نمونے لیبارٹری میں چیک کیے جاتے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے مزید بتایا کہ حکومت نے گردوغبار پر قابو پانے کے لیے واسا، ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل اپنایا ہے۔ ’’محمود بوٹی کا علاقہ اب ایکو زون میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں سولر انرجی کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف بیانات نہیں دے رہے بلکہ عملی طور پر ایئر کوالٹی انڈیکس کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔

شہریوں سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں اور بزرگوں کو ماسک پہنائیں، کھڑکیاں بند رکھیں، غیرضروری سفر سے گریز کریں اور حکومتی ہدایات پر عمل کریں تاکہ لاہور اور پنجاب کی فضا کو صاف اور محفوظ بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مریم اورنگزیب نے قابو پانے نے کہا کہ انہوں نے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

دہلی میں فضائی آلودگی پر سروے میں چونکا دینے والے انکشافات

44 فیصد گھرانے باہر نکلنے سے گریز کررہے ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کا استعمال کررہے ہیں، تقریباً ایک تہائی افراد آلودگی سے متعلق بیماریوں کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کررہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دیوالی کے بعد دہلی کی ہوا انتہائی زہریلی ہوچکی ہے۔ سی پی سی بی کے اعداد و شمار کے مطابق PM2.5 کی سطح پانچ سال کی بلند ترین سطح 488 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دیوالی سے پہلے کی سطح سے تین گنا زیادہ ہے۔ 20 اکتوبر دیوالی کی رات آلودگی کی سب سے زیادہ سطح ریکارڈ کی گئی۔ لوک سرکلس کے سروے کے مطابق دہلی-این سی آر کے تین چوتھائی گھروں میں لوگ آلودہ ہوا کے مضر اثرات کا شکار ہیں۔ گلے میں خراش، کھانسی اور آنکھوں میں جلن عام شکایات ہیں۔ 42 فیصد گھروں میں ایک یا زیادہ افراد گلے کی خراش یا کھانسی کا شکار ہیں۔ 25 فیصد کو آنکھوں میں جلن، سر درد یا نیند میں دشواری کا سامنا ہے۔ 17 فیصد سانس لینے میں دشواری یا دمہ کی شدت کی شکایت کررہے ہیں۔

وہیں 44 فیصد گھرانے باہر نکلنے سے گریز کر رہے ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کا استعمال کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی افراد آلودگی سے متعلق بیماریوں کے لئے ڈاکٹروں سے رجوع کر رہے ہیں۔ 23 فیصد رہائشی اس ہفتے یا اگلے ہفتے شہر سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 15 فیصد گھروں میں رہنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جبکہ 31 فیصد قوت مدافعت بڑھانے والی چیزیں استعمال کر رہے ہیں اور ایئر پیوریفائر لگا رہے ہیں۔ اسی طرح 8 فیصد لوگ ماسک پہن کر اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم 23 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے اور بس اس کے ساتھ جئیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی سفارش کردہ سطح سے 24 گنا زیادہ آلودگی کے باوجود، حکومتی اقدامات ناکافی نظر آتے ہیں۔ گراپ (GRAP) کے تحت سخت اقدامات، جیسے سموگ گن اور رات کی صفائی ضروری ہیں۔ سروے نے اینٹی پولوشن اقدامات کے سخت نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فضائی آلودگی اب صرف سانس کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دماغ اور جسم پر مکمل حملہ ہے، جے رام رمیش
  • دہلی میں فضائی آلودگی پر سروے میں چونکا دینے والے انکشافات
  • پنجاب حکومت صوبے کوسموگ سے پاک کرنے کیلئے متحرک
  • پنجاب: فضائی آلودگی شدت اختیار کرگئی، سانس لینا بھی صحت کیلئے خطرہ
  • لاہور آج بھی فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر
  • پنجاب میں فضائی آلودگی شدت اختیار کرنے لگی، کھلی فضا میں سانس لینا صحت کیلئے خطرہ بن گیا
  • پنجاب میں فضائی آلودگی کی شرح ایک بار پھر خطرناک حدوں کو چھونے لگی
  • مشرقی بھارتی ہواؤں سے وسطی پنجاب میں فضائی آلودگی میں خطرناک اضافہ
  • آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور پہلے نمبر پر