کوئٹہ، تحریک بیداری امت مصطفیٰ کیجانب سے "وحدتِ اُمت کانفرنس" منعقد
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
کانفرنس سے علامہ سید جواد نقوی، سابق سینیٹر مشتاق احمد خان، مولانا عبدالحق ہاشمی اور دیگر رہنماوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت ایمان کی علامت ہے، جبکہ جسے "امن" کہا جا رہا ہے وہ دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنیکی حکمت عملی اور ذلت پسندی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰؐ کے زیر انتظام کوئٹہ میں "وحدتِ اُمت کانفرنس" کے عنوان سے علمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مرکزی موضوع "غزہ کے میدان میں اُمت کا امتحان" تھا۔ سرینا ہوٹل کوئٹہ میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید جواد نقوی، سابق سینیٹر مشتاق احمد خان، مولانا انوارالحق حقانی، مولانا عبدالحق ہاشمی، مولانا دبیر حسین، مولانا عبدالکبیر شاکر، بیرسٹر افتخار حسین، مولانا سید سمیع اللہ آغا اور جمہوری اسلامی ایران کے قونصل جنرل محمد کریمی تودشکی سمیت دیگر مقررین نے کہا کہ آج یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اسرائیلی ظلم کے خلاف حکمرانوں سمیت امتِ مسلمہ کے تمام طبقات خاموش ہیں۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے اور اللہ کے حضور ایسی بے حسی ناقابل قبول ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰؐ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ ظلم کے مقابل عالم اسلام کی خاموشی دراصل اسرائیل کے لیے سب سے بڑا سہارا اور خونریزی کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے مظلوموں سے لاتعلقی اور انسانیت سوز جرائم پر خاموشی امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی آفت اور گویا اس کی موت کے مترادف ہے۔ مقررین نے کہا کہ قطر، مصر، سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات کو اسرائیلی مزاحمت ختم کرنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت ایمان کی علامت ہے، جبکہ جسے "امن" کہا جا رہا ہے وہ دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حکمت عملی اور ذلت پسندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اپنے نئے منصوبے بنا رہے ہیں، جبکہ مسلم حکمران ذلت کے راستے کو نجات سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ خاموشی اور سمجھوتہ دراصل غلامی کا راستہ ہے اور دشمن کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
تحریک تحفظ آئین کا 20 اور 21 دسمبر کو اسلام آباد میں قومی کانفرنس بلانے کا اعلان
اسلام آباد:تحریک تحفظ آئین پاکستان نے 20 اور 21 دسمبر کو اسلام آباد میں قومی مشاورتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کردیا۔
اعلامیہ کے مطابق تحریک تحفظ آئین پاکستان کا ہنگامی اجلاس محمود خان اچکزئی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ملک کی سیاسی، آئینی اور پارلیمانی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس میں علامہ راجہ ناصر، اسد قیصر، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 20 اور 21 دسمبر کو اسلام آباد میں قومی مشاورتی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں اپوزیشن جماعتیں، بار کونسلز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مدعو ہوں گی، مصطفیٰ کھوکھر، حسین یوسفزئی اور خالد چوہدری پر مشتمل انتظامی کمیٹی قائم کردی گئی۔
اجلاس میں اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی بہنوں پر مبینہ ریاستی تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت مذاکرات سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل کرے، عمران خان کے سیاسی رفقا اور اہلِ خانہ سے ملاقاتیں فوری بحال کی جائیں۔ عمران خان کے زیر التوا مقدمات کی میرٹ پر فوری سماعت شروع کی جائے۔
اجلاس میں خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے اشاروں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ غیر آئینی اقدام کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارت فوری بحال کی جائے اور تمام تنازعات کا حل مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے نکالا جائے، تحریک تحفظ آئین پاکستان کی جدوجہد آئین و جمہوری روایات کے تحفظ کے لیے جاری رہے گی۔
محمود خان اچکزئی:
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد آئین کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں، ملک میں آئین نام کی چیز ہی نہیں ہے، لوگوں کا رہبر جیل میں ہے، ان میں اتنی بھی شرافت نہیں کہ جیل میں ملاقات کی اجازت دے دیں۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ اگر ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے عمران خان سے ملاقات کی اجازت دیں، جس پارٹی سے مذاکرات کرنے ہیں اس کا لیڈر جیل میں ہے، جب عوام اٹھتی ہے تب سب کچھ جل جاتا ہے، ان کو ڈائلاگ کے لئے بسم اللہ کرنی چاہئے، اگر ملاقات کی اجازت ہو گی تو ڈائیلاگ کے لئے قدم بڑھایا جائے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان:
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا بہت ہو گیا، ان دو سالوں میں دھمکیاں اور دست و گریبان بہت ہو گئے، مینڈیٹ چوری کے بعد ہم پارلیمنٹ میں بیٹھے دھرنا نہیں دیا، آپ والدین کو جیل میں رکھ کر انہیں کھینچیں تو بچے کیسے آپ کے ساتھ بیٹھے گے، اگر آپ نہیں سمجھتے تو عوام آپ کو سمجھا دے گی۔
انہوں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عوام خان سے نہ ملے تو یہ ممکن نہیں ہے، پاکستان کی عوام کو طیش نہ دلوائیں، اس سے جمہوریت کا نقصان ہو گا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ ملاقات اس لئے نہیں کرواتے کہ وہاں سے ٹویٹ آتی ہے تو بشریٰ بی بی کی ملاقات کیوں بند ہے، عوام کے منتخب نمائندے ادھر آ کر کہیں گے کہ ہمیں بانی سے ملاقات کروائو، یہ ہماری کمزوری نہیں بلکہ سسٹم کا فالٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم پارلیمنٹ میں بات کرنا چاہ رہے تھے، جس طریقے سے پارلیمنٹ کا اجلاس چلایا گیا اس طرح سے اگر یہ چلائیں گے تو تھرڈ فورس فائدہ حاصل کرے گی۔