لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
لاہور:
پنجاب میں فضائی آلودگی کی صورتحال بدستور تشویش ناک ہے، آج بدھ کے روز لاہور ایک بار پھر دنیا کے سب سے آلودہ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔
عالمی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق بدھ کی صبح لاہور کا مجموعی ائیر کوالٹی انڈکس (اے کیو آئی) 403 ریکارڈ کیا گیا، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک سطح ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی دارالحکومت دہلی کا اے کیو آئی 235 رہا۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق آج صبح 6 بجے لاہور کے کئی علاقوں میں فضائی معیار خطرناک حد تک خراب تھا۔ کاہنہ نو، جی ٹی روڈ اور ایجرٹن روڈ پر اے کیو آئی 500 تک جا پہنچا، جوانتہائی مضر کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔
شاہدرہ میں 391، ڈی ایچ اے فیز 6 میں 371، برکی روڈ پر 361، ملتان روڈ پر 344 اور سفاری پارک کے قریب 339 ریکارڈ ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے علاقے میں اے کیو آئی 303 رہا، جبکہ نسبتاً بہتر فضا واہگہ بارڈر پر دیکھی گئی، جہاں یہ شرح 176 تھی۔
پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں رہی۔ سرگودھا میں اے کیو آئی 344، فیصل آباد میں 296، ملتان میں 287، گوجرانوالہ میں 274، قصور میں 257، شیخوپورہ میں 245، ڈیرہ غازی خان میں 217، سیالکوٹ میں 162، بہاولپور میں 154 اور راولپنڈی میں 130 ریکارڈ کیا گیا۔
ادارہ تحفظ ماحولیات کے مطابق بدھ کے روز لاہور کا اوسط اے کیو آئی 245 سے 275 کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ صبح 6 سے 9 بجے کے اوقات میں ٹریفک کے دباؤ اور درجہ حرارت میں کمی کے باعث آلودگی کی شدت مزید بڑھ کر 315 سے 340 تک جا سکتی ہے۔
دن کے وقت کچھ بہتری متوقع ہے، دوپہر 12 بجے سے شام 5 بجے کے درمیان اے کیو آئی 180 تک گر سکتا ہے، تاہم شام کے اوقات میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے اور رات 11 بجے تک یہ شرح 345 تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران لاہور کا درجہ حرارت 20 سے 31 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے گا، جبکہ ہوا کی رفتار ایک سے 10 کلومیٹر فی گھنٹہ تک متوقع ہے۔
ٹریفک، کوڑا جلانے اور گردوغبار کے باعث فضا میں کاربن اور ذرات (PM10) کی مقدار میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جو مجموعی آلودگی کو مزید بڑھا رہا ہے۔
ائیرکوالٹی سے متعلق ڈیٹا فراہم کرنیوالے عالمی اداروں کے مطابق گزشتہ چار برسوں سے اکتوبر اور نومبر کے مہینے لاہور میں سب سے زیادہ آلودہ ثابت ہو رہے ہیں۔ سال 2022 میں اکتوبر کا اوسط اے کیو آئی 182 رہا، جس دوران 19 دن فضا غیر صحت بخش درجے پر رہی۔
سال 2023 میں اکتوبر میں بہتری آئی اور اوسط شرح 128 ریکارڈ ہوئی، مگر نومبر میں دوبارہ اضافہ ہو کر 205 تک پہنچ گیا۔ سال 2024 میں اکتوبر کا اوسط اے کیو آئی 163 اور نومبر کا 184 رہا، جبکہ 2025 میں اکتوبر اور نومبر کے دونوں مہینوں میں اوسط انڈیکس 171 ریکارڈ کیا گیا۔ ان تمام برسوں میں لاہور میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا جب فضائی معیار "اچھا" قرار دیا جا سکے۔
چار سالہ مجموعی اوسط کے مطابق لاہور کا سالانہ اے کیو آئی 2022 میں 184، 2023 میں 121، 2024 میں 126 اور 2025 میں 117 رہا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ لاہور میں آلودگی کا رجحان مسلسل برقرار ہے اور شہری طویل عرصے سے غیر صحت بخش فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔
ادارہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز کے مطابق، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں آلودگی بڑھنے کی بڑی وجوہات میں فصلوں کی باقیات جلانا، گاڑیوں کے دھوئیں میں اضافہ اور موسم کی تبدیلیاں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت سموگ کے تدارک کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے، تاہم مؤثر بہتری کے لیے شہری تعاون اور سخت عمل درآمد ضروری ہے۔
انہوں نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ماسک پہننے کو معمول بنائیں، کچرا جلانے سے گریز کریں اور گاڑیوں کی بروقت دیکھ بھال کریں تاکہ دھوئیں کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں اکتوبر اے کیو آئی اور نومبر کے مطابق لاہور کا
پڑھیں:
پیپلزپارٹی کی حکمرانی کا کارنامہ ٗ کراچی 173بدترین شہروں میں 170ویں نمبر پر ٗ سیف الدین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)نائب امیر جماعت اسلامی کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ نے جماعت اسلامی ضلع شمالی کے تحت نیو کراچی میں 7000روڈ کی تعمیر کے سلسلے میں لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا کے بدترین 173 شہروں میں کراچی 172ویں نمبر پر ہے یہ پیپلز پارٹی کی حکمرانی کا ’’کارنامہ‘‘ ہے۔سندھ حکومت، کے ایم سی سب اپنی ذمے داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی عوام کے ساتھ ہے، ہم کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائیں گے،کرپشن کے نظام کا خاتمہ اور کراچی کے شہریوں کے جائز و قانونی حقوق چھین کر رہیں گے۔ہم نے 7000 روڈ کی تعمیر کے لیے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے ،جب تک یہ سڑک مکمل نہیں ہو جاتی جدوجہد جاری رہے گی، ہم روڈ کا مسئلہ سٹی کونسل، صوبائی اسمبلی سمیت ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ شہری جماعت اسلامی کے ساتھ اس جدوجہد میں شامل ہوں۔ اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آئیں، دھرنوں میں شریک ہوں، اور ظلم کے نظام کے خلاف کھڑے ہوں۔شہر کے تعلیمی ادارے، سڑکیں، پارک اور سیوریج کا نظام درست کرنے کے لیے جدوجہد ومزاحمت کو مزید تیز کریں گے۔احتجاجی کیمپ سے امیرجماعت اسلامی ضلع شمالی طارق مجتبیٰ نے بھی خطاب کیا۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے مزید کہاکہ ہم کارکنان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں انہوں نے عوام کے بنیادی اور اندرونی مسائل کے حل کے لیے میدانِ عمل میں آکر جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپ سب اس شہر کے ان نمائندہ لوگوں میں سے ہیں جو محض باتوں پر نہیں بلکہ عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ کراچی کے شہری اپنے حقوق کے لیے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔آج ہم سب 7000 روڈ کی تعمیر کے لیے جمع ہیں یہ وہ سڑک ہے جو برسوں سے تباہ حالی کا شکار ہے، جہاں عوام روزانہ اذیت برداشت کرتے ہیں، مگر حکومتِ سندھ اور بلدیاتی ادارے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو بنے ہوئے تقریباً78 سال** ہو چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی انہی بنیادی مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ کسی علاقے میں پانی نہیں، کہیں سیوریج کا عذاب ہے، کہیں بجلی غائب ہے، تو کہیں گیس نایاب ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی میں بچے کھلے گٹروں میں گر کر جان سے جا رہے ہیں، مگر حکمران صرف اعلانات اور دعووں پر اکتفا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ شہر جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا، آج قبضہ مافیا اور کرپشن مافیا کے نرغے میں ہے۔ سندھ حکومت عوام کی سہولت کے بجائے قبضہ گروپوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ پارک، میدان اور عوامی مقامات کمرشل بنیادوں پر بااثر لوگوں میں بانٹے جا رہے ہیں۔ یہ حکومت خود کام نہیں کرتی، بلکہ جب جماعت اسلامی عدالت جاتی ہے اور عدلیہ عوام کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، تو یہ حکومت اسی فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے سندھ حکومت نے حب کینال منصوبہ متعارف کرایا تھا، بڑے فخر سے کہا گیا کہ اس سے کراچی کو پانی فراہم ہوگا۔ مگر کیا ہوا؟ تین دن بھی نہ گزرے کہ یہ نہر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ جہاں سے پچاس سال پرانی نہر پانی پہنچاتی تھی جبکہ وہ نئی نہر تین دن میں ختم ہوگئی۔ یہی حال شاہرائے بھٹو اور کریم آباد فلائی اوورکا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی، بدعنوانی اور دو نمبری کے باعث اربوں روپے ضائع کر دیے گئے۔یہاں ہر منصوبہ کرپشن کا شکار ہے۔ ریڈ لائن بی آر ٹی کا منصوبہ ہو یا یونیورسٹی روڈکسی کام میں شفافیت نہیں۔ یہ روڈ ایک سال پہلے اربوں روپے لگا کر بنائی گئی، مگر بی آر ٹی کی لائن ڈالنے کے لیے اسے پھر توڑ دیا گیا۔ کیا یہی ترقی ہے؟یہ سب عذاب صرف اس لیے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ پر مسلط ہے۔ پیپلز پارٹی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اس نے کراچی کے وسائل لوٹ کر عوام کو غربت، پسماندگی اور تباہی کے حوالے کر دیا ہے۔ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے حکمرانوں نے بیرونِ ملک محلات، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس بنائے۔2سال میں جانگیر روڈ 5مرتبہ تعمیر ہوئی اور پانچوں بار بارش میں بہہ گئی۔ یہ اس کرپشن مافیا کی کارستانی ہے جو شہر کے ہر منصوبے کو کمیشن کی نذر کر دیتا ہے۔ ورلڈ بینک سے 1.66 ارب ڈالر قرض لیا گیا لیکن شہر آج بھی سیوریج اور گندگی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔کے فور منصوبہ جو 2005ء میں نعمت اللہ خان کے دور میں شروع ہوا، آج 2025ء میں بھی مکمل نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت نے 73 ارب روپے کے منصوبے کے لیے صرف 3 ارب روپے رکھے یہ کراچی دشمنی کی بدترین مثال ہے۔پورا کراچی پانی کے لیے ترس رہا ہے۔ کئی علاقوں میں تین تین ماہ بعد چند گھنٹوں کے لیے پانی آتا ہے، جبکہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پچیس سال سے پانی نہیں آیا۔ غریب بچے پانی کے کنٹینر اٹھا کر در در بھٹک رہے ہیں۔ یہ منظر کسی ویران صحرائی ملک کا نہیں، بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ہے۔طارق مجتبیٰ نے کہاکہ جماعت اسلامی ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کے لیے میدانِ عمل میں رہی ہے۔ آج نیو کراچی کی 7000 روڈ کی خستہ حالی کے خلاف ہمارا یہ احتجاجی کیمپ عوام کے بنیادی حق کی آواز ہے۔یہ سڑک روزانہ ہزاروں شہریوں کے لیے اذیت بن چکی ہے، مگر حکمرانوں کو عوام کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ عوامی مسائل کو ایوانوں تک پہنچایا اور آج بھی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر 7000 روڈ کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے۔ہم یہاں سیاست کے لیے نہیں، خدمت کے لیے کھڑے ہیں۔ جب تک یہ سڑک تعمیر نہیں ہوتی، ہم عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔