نویں جماعت کے نتائج ، نمبرز و گریڈ جاری نہ کرنا شفافیت پر سوالیہ نشان قرار
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی جانب سے نویں جماعت سال 2025ء کے نتائج میں مجموعی نمبرز اور گریڈز ظاہر نہ کرنے کے معاملے پر صوبائی وزیر جامعات و تعلیمی بورڈز سندھ محمد اسماعیل راہو نے سخت نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین میٹرک بورڈ سے تین روز میں تحریری وضاحت طلب کرلی۔ وزیر جامعات کی جانب سے چیئرمین کراچی بورڈ کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ بورڈ نے 23 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کیا مگر نہ تو مجموعی نمبرز فراہم کیے گئے اور نہ ہی مضامین کے لحاظ سے تفصیلات اور گریڈز ظاہر کیے گئے۔ اس کے بجائے صرف کامیاب طلبہ کے رول نمبرز مختلف ذرائع سے جاری کیے گئے جو نتائج کے روایتی اور مستند طریقہ کار سے انحراف ہے۔ محمد اسماعیل راہو نے کہا کہ نمبرز اور گریڈز ظاہر نہ کیے جانے سے طلبہ و والدین میں بے چینی اور شکوک پیدا ہورہے ہیں جبکہ شفافیت کے حوالے سے سنگین خدشات جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے کنٹرولر امتحانات اور آئی ٹی انچارج کو ہدایت کی کہ نتائج کے اعلان میں طریقہ کار سے انحراف کی تمام وجوہات اور حقائق تین دن میں تحریری طور پر پیش کیے جائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوری میں مبینہ طور پر ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ ڈیٹا اینالسز کے دوران سامنے آنے والے چونکا دینے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن سے ملک میں ڈاکٹروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس عدم تعمیل کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں، تاہم رواں سال صرف 56 ہزار 287 ڈاکٹرز نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائے، جبکہ 73 ہزار سے زائد ڈاکٹرز قابلِ ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود گوشوارے جمع کرانے میں ناکام رہے۔
اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شعبہ، جو ملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے پیشوں میں شمار ہوتا ہے، اپنی اصل آمدنی اور ظاہر کردہ آمدنی کے درمیان واضح تضاد رکھتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2025 میں 31 ہزار 870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا، حالانکہ بڑے شہروں میں ان کے کلینکس روزانہ مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔
صرف 24 ہزار 137 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے کسی حد تک کاروباری آمدنی ظاہر کی، لیکن ان کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس بھی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ مثال کے طور پر:
17 ہزار 442 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا۔
10 ہزار 922 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے سالانہ کے درمیان تھی، ان کا یومیہ ٹیکس محض 1,094 روپے رہا۔
3 ہزار 312 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,594 روپے ٹیکس دیا۔
سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 5,500 روپے ٹیکس ادا کیا۔
حیران کن طور پر 38 ہزار 761 ڈاکٹرز نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہر کی، جن کا یومیہ ٹیکس صرف 791 روپے رہا، جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز فی مریض 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ 31 ہزار 524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہر کرنے کے باوجود مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار زمینی حقائق سے شدید متصادم ہیں، کیونکہ ملک بھر میں نجی کلینکس ہر شام مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو گریڈ 17 اور 18 کے سرکاری افسران ماہانہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جتنا کئی ڈاکٹر پورے سہ ماہی میں بھی ادا نہیں کرتے، حالانکہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے:کیا ایک ملک صرف اُن طبقات کے ٹیکس پر چل سکتا ہے جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی، جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کریں یا بالکل ظاہر ہی نہ کریں؟
زیادہ آمدنی رکھنے والے طبقات کی جانب سے کم یا صفر آمدنی ظاہر کرنا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ٹیکس نظام میں انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بڑھتا ہوا یہ کمپلائنس گیپ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت اور انصاف کی بحالی کے لیے مؤثر اور بلا امتیاز انفورسمنٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔
اب زیادہ آمدنی والے پیشوں میں ٹیکس کمپلائنس کوئی اختیاری معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ قومی معیشت کے استحکام اور ریاستی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔