جسٹس منصور شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہارون رشید ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کو بہت پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ سسٹم کے نہ چلنے کی بنیاد جسٹس منصور علی شاہ نے ہی رکھی تھی، ان کے جونیئر ججز بھی قابل ہیں جو ان کی جگہ لے لیں گے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی
انہوں نے کہاکہ لوگوں کی اپنی رائے ہے، کچھ آئین میں ترمیم کے حق میں ہیں کچھ مخالف ہیں، تاہم پارلیمنٹ سپریم ہے اور آئین میں ترمیم ان کا حق ہے۔
ہارون رشید نے کہاکہ پارلیمنٹ میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور کابینہ شامل ہے، ججز کی ایما پر قانون سازی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہاکہ خط بازی کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا گیا ہے، افسوس ہے کہ کچھ ججز اپنی مرضی کا قانون چاہتے ہیں۔ عدلیہ پر کوئی قدغن نہیں لگی، جسٹس منصور علی شاہ نے استعفیٰ دے کر اچھا فیصلہ کیا۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہاکہ استعفے دے کر افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے جس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ ججز کی تقرریاں آئین کے مطابق ہی ہو رہی یں۔ آئین میں جو ترمیم کی گئی ہے اس پر من و عن عملدرآمد کیا جائےگا۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت نے 27ویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دیے، بل آئین کا حصہ بن گیا
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے 27ویں ترمیم کو آئین پر حملہ قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews استعفی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منصور علی شاہ ہارون رشید ایڈووکیٹ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استعفی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منصور علی شاہ ہارون رشید ایڈووکیٹ وی نیوز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ
پڑھیں:
بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے۔ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے۔
اپنے خط میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم تھا، بےنظیر بھٹو، نواز شریف، مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والا سلوک اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے پر نشانہ بنایا گیا، بہادر ججز کے خط اور اعتراف سپریم کورٹ کے ضمیر پر بوجھ ہیں، ہم سچ جانتے ہیں مگر صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے یہ بھی کہا کہ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، جو جج نہیں جھکتا، اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔