بین الاقوامی الصدیقۃ الشہیدہ کانفرنس(3)
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امام خمینی کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خالص اسلام کی بہترین خاتون کا عملی نمونہ اور الہیٰ عورت کا حقیقی مصداق ہیں۔ آپ ایک مجاہد اور مبارز انسان کا کامل نمونہ بھی ہیں۔ وہ ہستی جو عورت کی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و عرفان کی جستجو کرتی ہے، اپنی زندگی اور افکار کو روحانی معراج تک پہنچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے پر قدم رکھتی ہے۔ تاہم وہ یہیں نہیں رکتی بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ ملکر ایک قابل فخر نسل کی پرورش کرکے اپنے خاندان کو جہاد کے راستے پر ڈال دیتی ہے، امام خمینی عوام الناس بالخصوص طلباء کو نصیحت کرتے ہیں کہ حضرت زہراء کی شخصیت کو یک جہتی نہ دیکھیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا نام نہ صرف ایک عظیم پیغمبر کی بیٹی کی یاد دلاتا ہے، بلکہ فاطمہ ایک ایسی خاتون ہیں، جس نے اپنی مختصر زندگی کے باوجود تاریخ پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ وہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کو بہت زیادہ متاثر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ تمام انسانوں اور انسان سازوں کے لیے ایک منفرد نمونہ ہیں۔ جس چیز نے حضرت زہرا (س) کی شخصیت کو ایک ابدی اور لازوال نمونہ میں بدل دیا ہے، ان کا ایک کامل انسان کی حامل مختلف جہتوں سے بہرہ مند ہونا ہے۔ آپ عبادت اور روحانیت سے لے کر جدوجہد اور سیاست تک نیز خاندان کی پرورش سے لے کر حق اور انصاف کے دفاع تک ہر جہت میں کامل نمونہ ہیں۔
امام خمینی (رح) نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو روحانی ترقی و سربلندی، زہد و تقویٰ، سادگی، انحراف کا مقابلہ کرنے والی نیز روحانیت، تقویٰ اور علم کے ساتھ ایک نسل کی تعلیم اور تربیت کرنے والی ہستی کے طور پر ہم سب بالخصوص، علماء، طلباء اور خواتین کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ امام خمینی (رہ) کے بیانات کا جائزہ لینے سے ہم حضرت زہرا (س) کے نمونہ عمل ہونے کی امام خمینی کی نصیحت کے اہم ترین محور تک پہنچ سکتے ہیں۔ امام خمینیؒ خطبہ فدکیہ کو حکومت وقت کے خلاف جدوجہد، آزمائش اور ولایت کی حرمت کے دفاع کا ایک چارٹر سمجھتے ہیں۔ وہ چارٹر جو جھوٹے حکمرانوں کو رسوا کرنے اور لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے سامنے لایا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت زہرا (س) ایک گوشہ نشین غیر فعال خاتون نہیں تھیں، بلکہ ایک باشعور اور فعال کارکن کی حیثیت سے سیاسی انحرافات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور لوگوں کو ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔
امام خمینی حضرت فاطمہ (ع) کے فرزندوں (علماء و مجاہدین) کو جو ان کی آزادانہ اور بلاواسطہ پرورش میں ہیں اور تھے، کو اس جدوجہد کا وارث سمجھتے ہیں۔ یہ فرزندان طول تاریخ میں ظالم اور ظالم نظاموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور موجودہ دور میں بھی دشمنوں کو اسلام کے مقدسات پر تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ (صحیفہ امام جلد 20) امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ "علم اور تقویٰ" حضرت زہرا (س) کی زندگی میں اپنے عروج پر تھا اور یہ دونوں کسی گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ ان تمام صفات کو محفوظ رکھنے میں ہی عورت کی عظمت ہے، ہم سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیئے اور ہر کسی کو علم ہونا چاہیئے کہ تقویٰ سب کے لئے ہے اور علم و تقویٰ کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہم سب کا اور آپ سب کا فرض ہے۔ (صحیفہ امام جلد 19)
امام خمینی حضرت زہرا (س) کی "سنجیدہ روش اور زندگی کی سادگی" کو معاشرے کے لیے سبق آموز قرار دیتے ہیں۔ امام علی (ع) جیسے عظیم شوہر کے ساتھ سادہ اور پاکیزہ زندگی، قناعت اور دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز ایک مثالی زندگی ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے جو دین اور لوگوں کی خدمت کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے سیرت فاطمہ (ع) میں ایک بہت بڑا سبق موجود ہے۔ (صحیفہ امام جلد 17) حضرت زہرا (س) کی بچوں کی پرورش کا نمونہ روحانیت، تقویٰ اور علم کے ساتھ نسل کی تعمیر کا نمونہ ہے۔ خاندانی اور سماجی کرداروں کو یکجا کرنا حضرت زہراء کی ایک اور خوبی ہے۔ یہ عامل ثابت کرتا ہے کہ معاشرے میں شعوری سرگرمی و فعالیت کے ساتھ خاندان کی بہترین تربیت ممکن ہے۔
چنانچہ امام خمینی کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خالص اسلام کی بہترین خاتون کا عملی نمونہ اور الہیٰ عورت کا حقیقی مصداق ہیں۔ آپ ایک مجاہد اور مبارز انسان کا کامل نمونہ بھی ہیں۔ وہ ہستی جو عورت کی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و عرفان کی جستجو کرتی ہے، اپنی زندگی اور افکار کو روحانی معراج تک پہنچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے پر قدم رکھتی ہے۔ تاہم وہ یہیں نہیں رکتی بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ ملکر ایک قابل فخر نسل کی پرورش کرکے اپنے خاندان کو جہاد کے راستے پر ڈال دیتی ہے، امام خمینی عوام الناس بالخصوص طلباء کو نصیحت کرتے ہیں کہ حضرت زہراء کی شخصیت کو یک جہتی نہ دیکھیں۔
امام خمینی عوام الناس اور طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حقیقی مذہبی انسان وہ ہے، جو فاطمہ (س) کی طرح محراب عبادت میں شب زندہ دار ہو، سیاست کے میدان میں جرات مند اور باکردار ہو اور حق کا دفاع کرنے میں صف اول میں نظر آنے والا ہو اور گھر میں ایک عظیم مربی اور بہترین نسل کی پرورش کرنے والا ہو۔ فاطمہ زہرا (س) دونوں جہانوں کی عورتوں کی مالکن ہیں۔ اگرچہ قرآن مجید کی آیت کریمہ کے متن کے مطابق حضرت مریم کو دنیا کی برگزیدہ خواتین کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور دنیا کی نظروں میں وہ اعلیٰ مقام اور مثالی عفت و پاکیزگی کی حامل ہیں اور انہیں دنیا کی بہترین خواتین میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، لیکن وہ صرف اپنے زمانے کی خواتین میں سے برگزیدہ تھیں۔
دوسری طرف حضرت زہرا (س) کا اعلیٰ مقام و مرتبہ ان کی زندگی کے تمام ادوار تک پھیلا ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے صراحت کے ساتھ ایک اور قول میں فاطمہ (س) کا ذکر پہلی اور آخری دور کی تمام عورتوں کی سردار کے طور پر کیا ہے۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی بلکہ زندگی کے تمام لمحات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ حق و حقیقت کا متلاشی ہر شخص خاتون جنت (ع) کی زندگی کے ان پاکیزہ لمحات پر غور و فکر کرکے اپنے آپ کو اعلیٰ روحانی درجات تک پہنچا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ: (1)، جامع الاحادیث، جلد 1۔ 1، ص۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جہاد کے راستے پر حضرت فاطمہ زہرا کی بہترین کے طور پر کی پرورش زندگی کے کے ساتھ نسل کی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
میری بوا مہرو!
جوں ہی میں بوا کے گھر کے دروازے پہ پہنچا، دروازہ کھلا پایا۔ رات کے پونے تین بج رہے تھے؛ اور، دروازہ کھلا تھا! میں داخل ہوگیا۔ حدِ وحشت کو چھوتی ہوئی خامشی اور رات کا پچھلا پہر، مجھ پر کسی پہاڑ کی طرح ٹوٹتا محسوس ہوا۔
میں گھر کی لابی میں داخل ہوا ہی تھا کہ سرد ہوا کے جھونکے نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور مجھے ایک مانوس سی خوشبو اپنے گرد مہکتی محسوس ہونے لگی۔ یہ بوا مہرو کی خوشبو تھی، اس کے گھر کی خوشبو، میرے گھر کی خوشبو، جو مجھ سمیت میرے خانوادے کا اثاثہ رہی ہے۔ سامنے سنگھار تھا، خاموش، اور شاید میں نے اس کی خاموشی کو پڑھ لیا تھا۔
بوا مہرو اپنی آخری سانسیں لے چکی تھیں۔ سنگھار نے مجھے بتایا کہ میں گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بوا مہرو کے دنیاوی سفر کی آخری ساعتیں تھیں اور وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ مجھے لگا کہ شاید ان کو میرے آنے کا ہی انتظار تھا! یا شاید یہ میری خام خیالی تھی اور ان کو اس مخصوص وقت پہ جانا ہی تھا! میرا اُسی وقت گھر میں داخل ہونا محض ایک اتفاق تھا؛ ہاں مگر ایک بات تو طے تھی، بوا مہرو کی ہم بچوں میں جان رہتی تھی اور جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ سب اکٹھے ہوگئے ہیں تو وہ اپنے ابدی زندگی کی طرف چل پڑی ہوں گی۔ بہرحال اس لمحے میری زندگی سمٹ کے ایک نکتے پہ آن کھڑی ہوئی اور یادوں کا تانتا بندھ گیا۔
بڑے علم کے پاس ہمارا آبائی گھر ہے۔ گھر کیا، ہماری جنت! وہ جنت ہماری دادی، جسے ہم اماں مٹھی کہتے تھے، کی وجہ سے جنت تھا۔ میرے گھر میں سورج اماں مٹھی کی آواز سے اُگتا تھا۔ اماں صبح صبح وظائف الابرار سے تلاوت کرتیں اور گھر کو برکتوں سے بھر دیتیں۔ وہ مانوس آواز آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور میرے کانوں میں رس گھولتی ہے۔
کئی بار صبح صبح میرا ذہن، لاشعوری طور پر، میرے آبائی گھر کے صحن کی آغوش بیدار ہوتا ہے؛ وہی دھیمی آواز میں تلاوت، وہی مانوس خوشبو، میرے گھر کی خوشبو! ہماری شامیں بھی منفرد ہوتی تھیں۔ عصر سے مغرب تک محلے کی بچیاں مفت ٹیوشن کےلیے آتیں اور سبق دیا جاتا۔ یہ تھا ہمارا گھر، آپا خیرالنساء کا گھر۔ آپا خیرالنساء جس نے اپنی علم کی وارث بوا مہرو کو بنایا تھا اور وہ وعدہ بوا مہرو اپنی آخری سانس تک نبھاتی رہیں۔ ان دو عورتوں نے اپنی بہنوں، شاہدہ، شہناز اور تسلیم کے ساتھ مل کر علم و شعور کی شمعیں روشن کیں، جن سے کئی خاندان منور ہوئے۔ یوں ہمارا گھر پہلے آپا خیرالنساء اور بعد میں آپا مہرالنساء کے گھر کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یہ پہچان آج تک قائم ہے۔
آپا مہرالنساء نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغار درس و تدریس کے شعبے سے کیا۔ ابتدا میں وہ اس وقت کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول اور موجودہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بطور ایس ڈی اِی او قدم رکھا۔ وہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ایس ڈی اِی او کوٹ ڈیجی تعینات ہوئیں۔ کوٹ ڈیجی ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں انہوں نے بچیوں کی تعلیم کےلیے گوناگوں خدمات سرانجام دیں۔ گاؤں گاؤں جانا پرائمری اسکولوں کی انسپیکشن کرنا، اساتذہ کی تربیت اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا، ان کا وتیرہ رہا۔ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز تھیں۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اضلاع کے شعبہ تعلیم میں بطور ایس ڈی ای او، ڈی اِی او، اِی ڈی او خدمات سرانجام دیں اور آخر 2015 میں ڈائریکٹر کالجز کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ اس کے علاوہ، آپ نے غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا؛ بالخصوص بچیوں میں خود انحصاری و خوداعتمادی پیدا کرنے کےلیے اسکاؤٹنگ میں گرلز گائیڈ کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا۔
بوا مہرو 2015 میں ریٹائر تو ہوئیں لیکن سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی نڈر گزاری۔ ہم بچوں کےلیے وہ جستجو، ہمت اور جدوجہد کے حوالے سے ایک رول ماڈل تھیں۔ مجھے لگتا رہا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا۔ آپ بیمار پڑ جائیں، وہ کوئی ایسا ٹوٹکا بتاتیں کہ بیماری رفوچکر ہوجاتی۔ آپ کسی تقریب میں شریک ہونے جارہے ہوں، کپڑے نہیں ہوں، جادو کرتیں اور مناسب کپڑے آجاتے۔ آپ کی جیب خالی ہوتی، فیس کے پیسے نہیں ہوتے، وہ جادو کی چھڑی گھماتیں، آپ کی جیب میں کالج کا خرچہ بھی آجاتا اور، فیس بھی جمع ہوجاتی۔ سب سے بڑھ کر، آپ اگر کسی پریشانی سے دوچار ہوں، تمام دروازے بند ملیں اور کوئی سبیل نظر نہ آئے؛ آپ کو بوا مہرو کے پاس بیٹھ جانا ہوتا تھا اور تمام مسائل حل ہوتے محسوس ہوتے۔ بند کواڑ کھلنے لگتے اور آپ کی مشکل آسان ہوجاتی۔ یہ تھیں ہماری بوا مہرو۔ سب کی غمگسار، چارہ گر؛ سب کی مشکل کشا!
چند سال پہلے، بوا مہرو کو کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ کینسر ایک ایسا مرض ہے کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس سے پیار کرنے والے بھی شدید کرب سے گزرتے ہیں۔ بوا مہرو کی جب کیمو تھراپی ہورہی تھی تو میرا کلیجہ پھٹا جاتا۔ میں نے کئی بار ان کو دیکھ کر اپنے آنسوؤں کو پیا۔ دل چاہتا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں لیکن میرا عجیب معاملہ ہے؛ جذبات کے اظہار سے میری جان جاتی ہے اور ردعمل میں غائب ہوجاتا ہوں۔ بوا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ادھر اُدھر سے حال پوچھتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا۔ بوا ہمیشہ کی طرح بہادری سے لڑیں اور کینسر کو مات دے دی۔ یوں ان کی زندگی معمول پر آگئی۔ مجھے اطمینان ہوا لیکن گزشتہ سال نومبر میں ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کینسر کا جن جو بوتل میں بند تھا، اس نے پھر اپنا غلبہ دکھانا شروع کیا اور اس کے بعد طبیعت نہیں سنبھلی، بگڑتی چلی گئی۔ بوا مہرو نے آخری سانس تک ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس بیماری میں بھی ہمیں دلاسہ دیتیں، ہماری دل جوئی کا سامان کرتیں۔ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے گھلتا دیکھتے لیکن وہ عجیب دیومالائی طاقت کی مالک تھیں۔ ان کا جسم تو ڈھلتا جارہا ہوتا لیکن ان کی روح جواں ہوتی چلی جاتی۔ اپنے آخری سفر سے تین دن پہلے تک، جبکہ ان کو اندازہ تھا کہ اور زندگی موت کا آخری معرکہ لڑ رہی ہیں، ان کا حوصلہ پست نہیں تھا۔ وہ کراچی آنے کا پروگرام بنارہی تھیں، انہوں نے کپڑے خرید کے دینے تھے۔ انہوں نے بال بھی بنوانے تھے۔ وہ زندگی سے بھرپور تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایک بہادر لوگ دیکھے ہیں جو زندگی کو جینے کا حق ادا کرتے ہیں لیکن بوا مہرو سے بڑھ کر ابھی تک کوئی نہیں دیکھا۔
میرا آبائی گھر، صحن چھوٹا ہوگیا ہے، بوا مہرو اپنا آخری دیدار دے رہی ہیں۔ میں اور سنگھار جاتے ہیں۔ سہ پہر تین بجے جنازہ اٹھنا ہے۔ میں عجیب کشمکش سے گزر رہا ہوں۔ جس بوا نے ہمیں اپنی گود میں کھلایا، اس کو اپنے کندھوں پر لے جانے کی ذمے داری ہے۔ ہائے، یہ کیا ظلم ہے! اتنا بڑا امتحان۔ سنگھار آگے بڑھتا ہے اور آواز دیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہوں، ’’ہم اماں کو لیے جارہے، اگر کسی کا کوئی قرض یا لین دین ہے تو ابھی بتا دے۔ ہم ادا کردیں گے۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ رونے اور بین کی آواز بلند ہوتی ہے۔ بوا شہناز جملہ ادا کرتی ہیں، ’’اس پہ کس کا قرض ہوگا، یہ تو وہ ہے جو تا عمر سب کی حاجت روائی کرتی رہی ہے-‘‘ یہ سنتے ہی میں عجیب کیفیت سے گزرنے لگتا ہوں۔ کلمہ شہادت کی آواز بلند ہوتی ہے اور میرے گھر کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔