ہائیکورٹس میں تعینات ایڈیشنل ججوں کی مستقلی کیلئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب WhatsAppFacebookTwitter 0 22 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا، جس میں ہائی کورٹس میں تعینات ایڈیشنل ججوں کی مستقلی کا جائزہ لیا جائے گا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس 25 نومبر کو دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں طلب کیا۔

ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں ہائیکورٹس میں تعینات ایڈیشنل ججوں کی مستقلی کے بارے میں مجوزہ ڈیٹا فارم کا جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس میں جائزہ لینے کے لیے مجوزہ ڈیٹا فارم جوڈیشل کمیشن سیکریٹریٹ کی جانب سے تیار کیا گیا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبردبئی ائیر شو: بھارتی طیارہ حادثے میں فلائنگ رولز کی خلاف ورزی کے امکان کی تحقیقات جاری دبئی ائیر شو: بھارتی طیارہ حادثے میں فلائنگ رولز کی خلاف ورزی کے امکان کی تحقیقات جاری اپوزیشن اتحاد کا آئی ایم ایف رپورٹ میں سامنے آنے والی معاشی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز، پاکستان نے سری لنکا کو 7 وکٹ سے ہرادیا اسرائیلی حملے میں رہنما کی شہادت؛ حماس نے غزہ جنگ بندی ختم کرنے کا عندیہ دیدیا یوکرین اور امریکا صدر ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کریں گے سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی سیریز: سری لنکا کا پاکستان کو 129 رنز کا ہدف TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: میں تعینات ایڈیشنل ججوں کی مستقلی جوڈیشل کمیشن کا اجلاس

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بلائے گئے اہم فل کورٹ اجلاس میں ججوں نے ترمیم کے اثرات اور عدلیہ کے ادارہ جاتی ردِعمل پر تفصیلی غور کیا، تاہم اجلاس کے دوران پیش کی گئی اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہ آسکا۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے باعث سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو گئے اور اس کے اگلے ہی دن ایک درجن سے زیادہ جج چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع ہوئے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

گفتگو کے دوران جب ترمیم کے خلاف احتجاج میں سب کے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پیش کی گئی تو جج خاموش رہے اور کوئی اس پر راضی نظر نہ آیا۔

فل کورٹ کا یہ اجلاس 14 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا، اس وقت چار ججوں کو وفاقی آئینی عدالت میں بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی اور یہ اجلاس دو ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، کے استعفے کے ایک دن بعد بلایا گیا تھا۔

ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر 27ویں ترمیم پر بات کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی، تاکہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کی جا سکے۔

اجلاس کے بارے میں ایک ذریعے نے بتایا کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں ماحول کافی تناؤ کا شکار تھا اور سینئر جج اس صورتحال کو بہت افسوسناک دن قرار دے رہے تھے۔

اجلاس کا ماحول اس وقت مزید سنجیدہ ہو گیا جب ایک جج نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی یا آئینی ترمیم کرنے سے روک سکے؟

ترمیم کے اثرات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے افسوس ظاہر کیا کہ ججوں نے ان سے سیدھی بات کرنے کے بجائے خط لکھنا بہتر سمجھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ملنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

فل کورٹ اجلاس میں کم از کم 13 جج موجود تھے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک اجلاس میں نہیں آئے، جب کہ جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث شامل نہیں ہو سکیں۔

چار جج، امین الدین خان، حسن اظہر رضوی، عامر فاروق اور علی باقر نجافی کو پہلے ہی وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔

مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل
اجلاس میں ججوں نے اپنے دو ساتھیوں کے استعفوں پر افسوس کا اظہار کیا اور زور دیا کہ عدلیہ کو مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل سامنے لانا چاہیے۔

جب کچھ ججوں نے حکومت کو رسمی طور پر خط لکھنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ ججوں کو خط لکھنے کے بجائے پہلے ان سے براہِ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار موجود ہے تاکہ قانون سازی کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن یہ اختیار قانون بننے کے بعد استعمال ہوتا ہے، پہلے نہیں، لہٰذا عدالت پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔

جب ایک مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل پر اصرار کیا گیا تو ایک جج نے یہ تجویز دی کہ اگر جج عملی اور مؤثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں جو آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر ہو تو انہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس سمیت اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تاہم، یہ تجویز خاموشی کی نذر ہو گئی، جو اس بات کا اشارہ تھی کہ شرکا اس سے متفق نہیں تھے، چنانچہ اجلاس کسی متفقہ فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 25نومبرکو طلب کرلیا
  • ہائیکورٹس کے ایڈیشنل ججوں کی مستقلی—جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 25 نومبر کو طلب
  • 27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کے استعفے کی تجویز کو قبول نہیں کیا گیا
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کے تین الگ، الگ اجلاس طلب کرلئے
  • سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا
  • چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے 3 اجلاس 2 دسمبر کو ہوں گے
  • جوڈیشل کمیشن کے 3 اجلاسوں کا ایجنڈا جاری، ججز تعیناتی سے متعلق فیصلے کیے جائیں گے
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس 2 دسمبر کو سپریم کورٹ میں ہوں گے
  • چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اجلاس 2 دسمبر کو ہوں گے