پسوڑی کی گلوکارہ ’شے گل‘، کا اپنے حقیقی نام سے متعلق حیران کن انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
پاکستان کی مشہور گلوکارہ ’شے گل‘، جو اپنے عالمی مقبول گانے ’پسوڑی‘ کے لیے جانی جاتی ہیں، نے حال ہی میں اپنے حقیقی نام سے متعلق حیران کن انکشاف کر دیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق اداکارہ دنانیر مبین کے پروگرام میں شے گل نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا اصل نام ’انوشے بابر گل ‘ہے تاہم انہیں میوزک انڈسٹری میں شے گل نام سے جانا جاتا ہے۔ گلوکارہ نے بتایا کہ ’شے‘ کا ’نِک نیم ‘ ان کے یونیورسٹی کے دنوں میں وجود میں آیا، جب ان کے ایک دوست نے ان کی مشابہت مشہور ڈرامہ سیریز ’گیم آف تھرونز‘ کے ایک کردار سے کی اور انہیں ’شے‘ کہنا شروع کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اداکارہ دنانیر مبین کے پروگرام میں شے گل نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا اصل نام ’انوشے بابر گل ‘ہے تاہم انہیں میوزک انڈسٹری میں شے گل نام سے جانا جاتا ہے۔ گلوکارہ نے بتایا کہ ’شے‘ کا ’نِک نیم ‘ ان کے یونیورسٹی کے دنوں میں وجود میں آیا، جب ان کے ایک دوست نے ان کی مشابہت مشہور ڈرامہ سیریز ’گیم آف تھرونز‘ کے ایک کردار سے کی اور انہیں ’شے‘ کہنا شروع کر دیا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ایک
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔