کراچی: اردو یونیورسٹی سے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
وفاقی اردو یونیورسٹی سے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اب تک 60 سے زائد ملازمین کو فارغ کیا جاچکا ہے یا ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی گئی ہے۔
جب کہ قائم مقام رجسٹرار ثمرہ ضمیر کو بھی ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ مشیر امور طلبہ اسسٹنٹ پروفیسر سعدیہ خلیل کو رجسٹرار کے عہدے کا چارج دیا گیا ہے۔
موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ضابطہ خان شنواری کے 10 ماہ کے دور میں یہ تیسری رجسٹرار ہیں۔
جمعہ کو سینئر افسران پی آر او اور فوٹوگرافر کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی گئی، دونوں افراد کا تقرر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں ہوا تھا اور ہر سال ان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جاتی تھی۔
یاد رہے کہ موجود وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطۂ خان شنواری کا تقرر سابق صدر عارف علوی نے 27 فروری 2024 کو کیا تھا وہ تیسرے نمبر پر تھے، پہلے نمبر پر زرعی یونیورسٹی پشاور کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر جہاں بخت تھے۔
جبکہ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر محمد علی شاہ تھے جو اب ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر مقرر ہوچکے ہیں۔ پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار ڈاکٹر بخت جہاں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس تقرری کو چلینج بھی کر رکھا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج، معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے تھانہ صدر میں ڈاکٹر امتیاز احمد کی جانب سے ڈاکٹر عمر سلطان، ڈاکٹر شاہد علی اعوان اور ڈاکٹر وقار عمرانی امیت 30 سے 35 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلبا کے لیے ڈریس کوڈ کا اعلان کیوں کیا؟ جامعہ کراچی نے وضاحت کردی
درج ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 24 اپریل کو وہ جناح اسپتال کے او پی ڈی کمپلیکس میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کہ اس دوران مذکورہ ڈاکٹروں سمیت 30 سے 35 افراد او پی ڈی میں داخل ہوئے اور او پی ڈی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ ہم نے جواب دیا کہ ہم او پی ڈی بند نہیں کریں گے جس کے بعد یہ افراد مشتعل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا جبکہ او پی ڈی میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
درج مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر یاسین عمرانی کے کہنے پر ہوئی ہے لہٰذا ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر محمد علی کے مطابق مریضوں کو دیکھنے والے ینگ ڈاکٹرز پر ہونے والا تشدد قابل مذمت ہے۔
ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق یہ حملہ ایک انتظامی پوسٹ کے لیے کرایا گیا ہے جس میں باہر کے لوگوں کا تعاون حاصل کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق جناح اسپتال کے سیکیوریٹی انچارج ڈپٹی ڈائریکٹر یاسین عمرانی کو نااہلی کی بنیاد پر ٹرانسفر کیا گیا جس کے بعد ان کی انتظامی پوسٹ کو بچانے کے لیے مریضوں کو علاج سے محروم کرنے کے لیے ایک ناکام کوشش کی گئی۔
ترجمان نے بتایا کہ اس وقت سندھ کے کسی بھی اسپتال میں سروس بند نہیں ہے اور تمام اسپتالوں میں مریضوں کا علاج جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوپی ڈی کمپلکس جناح اسپتال ڈاکٹر بمقابلہ ڈاکٹر