کراچی میں فراہمی آب کے دعوے، نقش برآب ثابت
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
سندھ حکومت نے کراچی واٹرکارپوریشن میں کرپشن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے، جس کا آغاز سی ای او کو نہ صرف کام سے روک کرکیا گیا ہے بلکہ سی ای او کے مرکزی دفتر میں داخل ہونے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
سی ای او کے خلاف یہ اقدام زیر زمین پانی نکالنے کے لائسنس کے نام پر کروڑوں روپے کے گھپلے سامنے آنے پر اٹھایا گیا ہے جب کہ کراچی واٹر کارپوریشن میں پہلے سے موجود ٹینکر مافیا کی کرپشن روکنے اور شہر میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے شہریوں کو پریشان کرنے، پانی کی چوری میں ملوث کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی اور ادارے کے سی ای او کرپشن کے الزام کا نشانہ بنے ہیں۔
سندھ حکومت نے زیر زمین پانی کے لائسنسوں کے اجرا میں بے ضابطگیوں اور پانی چوری کرنے کے خلاف بڑے پیمانے پر انکوائری کا بھی حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی واٹر کارپوریشن کے چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بااختیار میئر ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ اس سے قبل ایم کیو ایم کے کسی میئر کو بااختیار نہیں بنایا گیا تھا اور بااختیار میئر اور چیئرمین واٹر کارپوریشن کے باوجود موسم سرما میں بھی شہریوں کو پانی نہیں مل رہا۔ کراچی واٹر کارپوریشن جو پہلے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تھا اور سٹی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سندھ کی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے جس میں میئر کراچی کی کوئی اہمیت پہلے نہیں تھی۔
سٹی حکومت کے نظام میں سٹی ناظم ہی کراچی واٹر بورڈ کے سربراہ تھے اور ایک یوسی ناظم کو بھی واٹر بورڈ میں اہم ذمے داری دی جاتی تھی اور فراہمی آب کی اتنی شکایات ماضی میں کبھی نہیں رہیں۔
سندھ حکومت کے کنٹرول میں آنے اور سٹی حکومت کے نظام کے خاتمے کے بعد دیگر بلدیاتی اداروں پر بھی سندھ حکومت کا مکمل کنٹرول قائم ہوا تھا اور سندھ حکومت نے اپنے خاص افراد کو ان اداروں کا سربراہ بنایا جس کے بعد ہر ادارے میں کرپشن کو فروغ حاصل ہوا جس میں ایس بی سی اے کو سب سے کرپٹ ادارہ تصور کیا جاتا ہے اور کراچی میں ترقی کے نام پر کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے کو ذمے داریاں دی گئی تھیں اور بلدیہ عظمیٰ، ڈی ایم سیز اور ٹاؤنز اور یوسیز کو بھی صفائی کرانے کے اختیارات سے محروم کرکے کراچی میں صفائی کرانے کی ذمے داری ایک نئے سرکاری ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دی گئی تھی جب کہ سیوریج کے پانی کی نکاسی اور گٹروں کے ڈھکنوں کی تنصیب کے ڈبلیو ایس بی کے پاس رہی مگر شہر میں فراہمی ونکاسی آب اور کھلے گٹروں کی جو صورت حال ہے اتنی بری صورتحال ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ کے ڈبلیو ایس بی کو کراچی واٹر کارپوریشن کا نام دیا گیا جس کے پاس زیر زمین پانی استعمال کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا بھی اختیار ہے جس میں گھپلوں کی بھرمار کی وجہ سے بدعنوانیاں ثابت ہونے پر 70 لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
کراچی میں بلک کنکشنز میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی شکایات منظر عام پر آچکی ہیں اور کراچی کو پانی فراہم کرنے والے اس ادارے نے بورڈ سے واٹر کارپوریشن بننے کے بعد شہر میں فراہمی آب کا بوسیدہ نظام بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ دو سال سے واٹر بلوں میں ہر سال بیس فیصد رقم بڑھانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ادارہ ہر سال پانی کے نرخ بڑھا کر اپنی آمدنی ضرور بڑھا رہا ہے مگر شہر میں فراہمی آب کی صورت حال روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
اندرون شہر جہاں واٹر کارپوریشن بنائے جانے سے قبل لائنوں میں کچھ پانی آ ہی جاتا تھا مگر ضرورت کے مطابق پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ ٹینکر خریدنے پر مجبور تھے، واٹر کارپوریشن کے بعد پانی کی قلت مزید بڑھی تو لوگوں نے اپنے اپنے طور پر زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لیے بورنگیں کرانا شروع کیں جو مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح بورنگوں کے باعث مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ کراچی میں جہاں زیر زمین پانی استعمال کے قابل ہے وہاں لوگوں نے بورنگیں کرا کر پانی کی بڑی بوتلوں کی فروخت شروع کر رکھی ہے۔
وہ اپنی دکانوں پر منہ مانگے داموں پانی فروخت کر رہے ہیں اور ان کے کارندے کچھ زیادہ نرخوں پر گھروں پر پانی کی بڑی بوتلیں فراہم کر رہے ہیں۔ پہلے بڑی کمپنیاں زیر زمین پانی نکال کر مختلف ناموں سے مہنگے داموں یہ پانی فروخت کرکے مال کما رہی تھیں اور حکومت کو کچھ نہیں ملتا تھا جس کے بعد سندھ حکومت نے اپنے افسروں کی کمائی بڑھانے کے لیے زیر زمین پانی کا کاروباری طور پر فروخت کے لیے لائسنس کی پابندی لگا دی اور واٹر کارپوریشن جو واٹر لائسنس جاری کرتی اس کو بھی بدعنوانوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور لائسنسوں کے اجرا میں اتنی زیادہ کرپشن بڑھی کہ سندھ حکومت کو لائسنسوں کے اجرا میں کروڑوں کی کرپشن کا نوٹس لینا پڑا۔
تحقیقات میں ستر لائسنس منسوخ کیے گئے اور پہلی بار ادارے کے سی ای او کے خلاف کارروائی عمل میں لانا پڑی۔شہر میں ٹینکر مافیا انتہائی طاقتور اور سیاسی افراد پر مشتمل ہے جو سرکاری پانی چوری کر کے ٹینکروں کے ذریعے منہ مانگے داموں فروخت کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیر زمین پانی سندھ حکومت نے میں فراہمی فراہمی آب کراچی میں حکومت کے سی ای او پانی کی کے خلاف کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن )سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہر مشکل دور میں کراچی پریس کلب ہی وہ جگہ ہے جہاں اپوزیشن کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، امید ہے کراچی پریس کلب اپنی ان منفرد روایات کو جاری رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت نے جو اس وقت اقدامات کئے ہیں اور پانی کی معطلی کا جو فیصلہ ہے اس کو کسی کی اجازت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اگر کینال بنانا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہئے تھا، سندھ آج سراپا احتجاج ہے ایک ایسا صوبہ جہاں کراچی واقع ہے یہاں سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا اثر ملک پر پڑے گا، ابھی تک اس کینال پر کوئی حکومتی رکن قومی اسمبلی پر بات نہیں کرسکا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین میں ہر طرح کی ترامیم کی جاتی ہیں، ان کے اثرات کئی نسلوں تک ہوتے ہیں، جمہوری ممالک میں قانون میڈیا کی آزادی کے لئے بنتے ہیں، آج وہ وقت نہیں جو قانون کا سہارا لے کر میڈیا پر پابندی لگائی جائے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا نوجوان کیوں ہتھیار اٹھاتا ہے، قانون کی بالادستی کے ذریعے پریشانیوں کو ختم کرسکتے ہیں، سیاست میں انتشار ہے، پاکستان میں نئے صوبوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی 70 فیصد آبادی کو پانی میسر نہیں، دنیا کا کوئی ملک دکھائیں جہاں پانی ٹینکر سے جاتا ہو، اشرافیہ عوام کی بنیادی سہولت پر قابض ہے، حکومت کی اتنی بھی رٹ نہیں کہ پانی پہنچا سکے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹینکروں سے پانی کی ترسیل کا مقصد ہے کہ مطلوبہ مقدار میں پانی دستیاب ہے لیکن کراچی کے باسیوں کو پانی کی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے، میرا گھر پہاڑ پر ہے وہاں بھی پانی لائنوں سے ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ نہیں چلے گا تو پاکستان نہیں چلے گا جو حالات کراچی کے ہوں گے وہی حالات پورے پاکستان کے ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کراچی کو پیچھے رکھ کر پاکستان ترقی کرے، کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ میں حکومت ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اور وفاق میں سب اتحادی ہیں لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے ، نوجوان ملک چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام جماعتوں کے پاس حکومت ہے، ہم روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں لوگ ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں، اس مسئلے کا حل بات کرکے ہی ملے گا ان کے تحفظات سنے جائیں، بلوچستان کے نمائندگان وہ ہوں جو عوام کا ووٹ لے کر آئیں۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج بے پناہ اصلاحات کی ضرورت ہے، آج ایسی صورت حال ہے کہ اصلاحات پر بات بھی نہیں کی جاتی، آج نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ مخالفت کی سیاست کرتے ہیں ہم آئین و قانون کے تحت سیاست کرتے ہیں، ہماری پارٹی کام کر رہی ہے آہستہ آہستہ لوگ ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں نہ سرمایہ آئے گا اور نہ معیشت بہتر ہوگی، ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے سکول سے باہر ہونا سب سے اہم مسئلہ ہے، ان اہم معاملات پر توجہ دے کر فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے کے باوجود پاکستان میں خط غربت بڑھ کر 42.4 فیصد پر آگئی ہے۔
شملہ معاہدہ، 1972 کا وہ معاہدہ جس نے بھارت پاکستان تعلقات کی بنیاد رکھی
مزید :