بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے زیر انتظام بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی 5 سالہ آڈٹ رپورٹ نے بورڈ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کی نشاندہی کی ہے۔آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ تیار کرکے صوبائی اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے جس میں بورڈ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2017 سے 2022 کے دوران ضرورت کے برعکس کتابوں کی مشکوک پرنٹنگ سے قومی خزانے کو 11کروڑ 64 لاکھ کا نقصان پہنچا یا گیا،کاغذ اور دیگر پرنٹنگ مٹیریل کی خریداری میں تقریباً 53کروڑ 80 لاکھ جب کہ وینڈرز کو غیر ضروری رعایت دینے سے 23کروڑ 85 لاکھ روپے کی بے قاعدگی سامنے آئی۔رپورٹ میں بتایاگیا ہےکہ اسکولوں اور کالجز کے لیے چھپنے والے کتب رکھنےکیلئے عمارت کے حصول میں قومی خزانے کو 11کروڑ کا ٹیکا لگایا گیا، اسی طرح لائسنس فیس کی مد میں غیر ضروری اخراجات سے 21کروڑ جب کہ گورنمنٹ ٹیکس کی کم کٹوتی سے قومی خزانے کو 27کروڑ 23لاکھ کا نقصان اٹھانا پڑا ْ۔بعد ازاں بلوچستان اسمبلی نے مزید چھان بین کیلئے آڈٹ رپورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپرد کردی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
عید کے تیسرے روز کراچی کی مویشی منڈیوں میں سناٹا، جانوروں کی قیمتیں آدھی ہو گئیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، مگر خریداروں کی عدم دلچسپی کے باعث شہر کی بڑی مویشی منڈیاں سنسان پڑی ہیں۔
یونیورسٹی روڈ پر قائم شہر کی مرکزی منڈی میں قربانی کے بعد گہما گہمی کی جگہ ویرانی نے لے لی ہے۔ بیوپاریوں نے جانوروں کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد تک کمی کر دی ہے، لیکن اس کے باوجود منڈی میں خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے ایام ختم ہوتے ہی شہری کم قیمت پر جانور خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے باعث وہ بھاری نقصان میں جا رہے ہیں۔ ایک بیوپاری نے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لاڑکانہ سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کا جانور لے کر آیا تھا، لیکن 70 لاکھ روپے میں بھی خریدار میسر نہیں آ رہا۔
بیوپاریوں نے منڈی میں انتظامی سہولیات کی کمی پر بھی ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے پینے کے صاف پانی تک کا بندوبست نہیں کیا گیا، اور وہ مجبوری میں 1500 روپے میں پانچ ڈرم پانی خریدنے پر مجبور ہوئے۔
ایک اور بیوپاری نے بتایا کہ انہوں نے 4 لاکھ روپے صرف کرایے میں خرچ کیے تاکہ جانور کراچی لا سکیں، لیکن یہاں کے شہری ان سے 4 لاکھ کا جانور محض 2 لاکھ میں خریدنے پر بضد ہیں، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
بیوپاریوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر جانور مناسب نرخوں پر فروخت نہ ہوئے تو وہ انہیں واپس آبائی علاقوں کو لے جانے پر مجبور ہوں گے۔ بعض بیوپاریوں نے دل برداشتہ ہو کر آئندہ کراچی میں مویشی منڈی نہ لگانے کا مشورہ بھی دیا، تاکہ شہریوں کو جانوروں کی اصل قیمت کا اندازہ ہو سکے۔