Jasarat News:
2025-09-18@23:29:50 GMT

مالدیپ اور افغانستان میں بھارت کی واپسی؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مالدیپ اور افغانستان میں بھارت کی واپسی؟

بھارت کو چند برس میں جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں سے نکلنا پڑا۔ ان میں افغانستان، مالدیپ اور بنگلا دیش نمایاں تھے۔ تینوں ملکوں سے بھارت کی رخصتی کے انداز جداگانہ اور وجوہات ایک جیسی تھیں۔ بھارت ان ملکوں اور معاشروں پر بالادست ہونا چاہتا تھا۔ جس کے ردعمل میں تینوں ملکوں میں بھارت کو جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ افغانستان میں طالبان کے عسکری غلبے کا دائرہ مکمل ہونے کے نتیجے میں بھارت کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے دوست افغان حکمران اشرف غنی بھی اس بدلی ہوئی لہر میں بہہ گئے۔ مالدیپ میں صدر معیزو نے انتخابی مہم میں ’’انڈیا آؤٹ کا نعرہ‘‘ لگایا عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا اور یوں بھارت کو مالدیپ میں اپنی فوجی موجودگی کو کم کرنا پڑا۔ تیسری بے دخلی بنگلا دیش میں ہوئی۔ یہ افغانستان کی طرح عسکری حکمت عملی کا باعث تھی نہ مالدیپ کی طرح انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ اور نہ ہی بنگلا دیش کی طرح عوامی تحریک کا ثمر تھا۔ جس میں شیخ حسینہ نے فارم سینتالیس ٹائپ الیکشن منعقد کروا کے اپنی طاقت کے قلعے کی فصلیں فلک بوس بنا دی تھیں۔ اپوزیشن جیلوں میں تھی۔ سیاسی مخالفین کوکینگرو کورٹس کے ذریعے پھانسیاں دلوا کر خوف ودہشت کی فضا قائم کی جا چکی تھی۔ جب عوامی جذبات کا پہیہ اُلٹا چل پڑا تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ گیا۔

بھارت نے مختصر مدت میں افغانستان اور مالدیپ میں اپنی واپسی کا سامان کرکے اس نقصان کا ازالہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جلد یا بدیر بنگلا دیش کے ساتھ بھی بھارت اپنے تعلقات کی دراڑوں کو بھرنے میں کامیاب ہوگا۔ دونوں کے درمیان انتظامی وجہ نزع شیخ حسینہ ہیں۔ یہ اختلاف اس قدر گہرا نہیں جتنا کہ طالبان کے ساتھ بھارت کے تعلقات معمول پر آنا ایک مشکل بلکہ ناممکن اور جان جوکھم کا کام تھا۔ بنگلا دیش میں پاکستان کو جو رسائی ملی ہے یہ دہائیوں بعد ملنے والی وہ اسپیس ہے جو اس کا جائز حصہ تھا اور بھارت اسے دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس سے زیادہ خواب اس تبدیلی سے وابستہ کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح افغانستان میں بھارت نے اپنی اسپیس واپس حاصل کرنا شروع کی ہے۔ مالدیپ کے وزیر دفاع محمد غسان مامون نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا ہے اس دوران ان کی وزیر دفاع راجناتھ سے ایک اہم ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، صنعتی اور سمندری شراکت داری کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں نے مل کرکام کرنے کا پختہ عزم ظاہر کیا ہے۔ راجناتھ سنگھ نے کہا بھارت کی ’’سب سے پہلے پڑوسی‘‘ کی پالیسی میں مالدیب کا ایک اہم مقام ہے۔ یوں یہ بات واضح ہورہی ہے کہ مالدیپ کے عوام نے بھارت کو ووٹ کے ذریعے باہر کیا تو بھارت اس ملک کے عوام کی مجبوری بن کر واپس آگیا۔ اسی طرح دبئی میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور بھارتی خارجہ سیکرٹری وکرم مسری کی ملاقات نے بھی اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ بھارت افغانستان میں کہانی کا آغاز وہیں سے کرنے جا رہا ہے تھا جہاں وہ ادھوری رہ گئی تھی۔ اس ملاقات میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں بھرپور حصہ لے گا۔ اس سے دودن پہلے بھارت نے پاکستان کی طرف سے افغانستان میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی تھی۔ بھارت کی کامیابیوں کو پاکستانی حیرت اور حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کامیابیوں کا تاج محل پاکستانیوں کو دکھائے جانے والے برسوں کے خوابوں کی راکھ پر ہے۔ ان کامیابیوں پر حیرت تو ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ اقبال فرماتے ہیں۔

نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میری عادت نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مۂ شبانہ

بھارت ترقی کا ایک زینہ چڑھتا ہے ہمیں نوے کی دہائی میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا کوئی کالم جنرل حمید گل سے کسی انٹرویو یا ان کی کسی تقریر کا کوئی جملہ یاد آتا ہے۔ یہ سب کچھ خوبصورت خوابوں کا مرقع ہوا کرتے تھے۔ بھارت میں علٰیحدگی کی درجنوں تحریکوں کے تناظر میں ہمیں یقین دلایا گیا تھا اس کے نتیجے میں سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو کر رہ جائے گا۔ نوے کی دہائی مستقبل کے امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے شروع ہونے والی میراتھن کی تیاریوں اور اس کے اصول طے کرنے کا زمانہ تھا۔ معیشت کی گاڑی کی سمت درست کرنے کا دور تھا۔ بھارت آج معاشی ترقی کی جس راہ پر گامزن ہے اس کی سمت کا تعین نوے کی دہائی میں ہو چکا تھا۔ نوے کی دہائی میں پاکستان سیاسی اور عسکری تجربات کی راہوں پر بھٹکتا رہا۔ عسکری تخلیق طالبان کو آخری آپشن جان کر اُبھارنے کی کوشش تھی تو سیاسی تجربے کا نام بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کا ادل بدل کا کھیل تھا یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف خود کھیل کے میدان میں آدھمکے۔ حیرت کی بات یہ کہ جب بھی اس خطے میں امریکا کو کوئی جنگ لڑنا ہو تو اس سے پہلے پاکستان میں آمریت یا نیم آمرانہ نظام قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ افغانستان کا جہاد اپنے جلو میں جنرل ضیاء الحق جیسے مردمومن کو لایا۔ برسوں بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا مرحلہ آیا تو جنرل پرویز مشرف نے عزیز ہم وطنوں کا سلام ِمحبت کہہ دیا۔

یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر خوارج کے تعاقب پر لگا دیا گیا ہے اور موجودہ نظام کی سختی اور کرختگی یہی بتا رہی ہے کہ پاکستان کو ایک اور جنگ کی دلدل میں طویل مدت کے لیے دھنسنا ہے۔ پاکستان خوارج کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک خونیں کھیل ہے جس میں دونوں طرف کا نقصان ہوتا رہے گا اور دہشت گردی پاکستان کے گلی کوچوں میں ڈیرے ڈالے رکھے گی۔ دہشت گردی کے ماحول میں نہ برآمدات بڑھتی ہیں نہ سیاحت کو فروغ ملتا ہے۔ اوپر سے جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی بندش کا مائنڈ سیٹ رہی سہی معیشت کو برباد کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس ماحول کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ پاکسان کی معیشت کسی ٹھوس بنیاد پر کھڑی ہونے کا امکان نہیں اور پاکستانیوں کا مقدر برادر ملکوں کے قرضوں اور آئی ایم ایف کی قسطوں پر انحصار ہی رہے گا اور اس عرصے میں پاکستان کے پڑوسی نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے؟۔ امریکا کے دہلی سے رخت سفر باندھنے والے سفیر ایرک گارسیٹی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکن ڈریم اور انڈین ڈریم حقیقت میں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ دونوں ملکوں کو لشکر، جیش اور داعش دہشت گرد تنظیموں کے خطرے کا سامنا ہے۔ ہمیں مل کر اس خطرے کا مقابلہ کرنا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے تارکین وطن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی تارکین وطن 2047 تک ملک کو ترقیاتی یافتہ بنانے کے ویژن کا لازمی حصہ ہیں۔ ہم ہیں کہ اپنے بہترین پوٹینشل یعنی تارکین وطن کو ناراض، مایوس اور نالاں کیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو جس اسٹائل سے چلایا جا رہا ہے اس میں تارکین وطن کا اعتماد بحال ہونے کا دوردور تک امکان نہیں۔ خداجانے ہمیں کس نے اپنی ہی صورت بگاڑنے کے کام پر مامور رہنے کی بددعا تھی اور اب ہم اسی کام میں جُت کر رہ گئے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: افغانستان میں پاکستان کو تارکین وطن میں بھارت بنگلا دیش بھارت نے بھارت کو بھارت کی کرنے کا بھارت ا

پڑھیں:

بھارت کا ڈرون ڈراما

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مودی سرکار آپریشن سندور میں پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد نیا محاذ کھولنے کی تیاری کررہی ہے۔بی جے پی حکومت کا ڈرون ڈراما شروع ہوگیا۔ بھارتی عوام کو خوفزدہ کر کے پاکستان مخالف جنگی جنون بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر جنگی جنون کو ہوا دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے۔بی جے پی اور بھارتی فوج مشترکہ طور پر پروپیگنڈا مہم چلا کر اندرونی ناکامیاں چھپانے میں مصروف ہیں۔ گودی میڈیا ایک مرتبہ پھر جعلی خبریں پھیلا کر فالس فلیگ آپریشن اور پاکستان مخالف محاذ تیار کرنے میں سرگرم ہوگیا۔
پونچھ میں پاکستانی ڈرونز کی موجودگی کے بعد سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ حکام کے مطابق ڈرونز نگرانی کے لیے لانچ ہوئے اور پاکستانی حدود میں 5 منٹ میں واپس چلے گئے۔ پاکستان سے آنے والے نصف درجن ڈرونز جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں سرحدی علاقوں پر منڈلاتے دیکھے گئے۔ ڈرونز کی سرگرمی مینڈھر سیکٹر میں بالاکوٹ، لنگوٹ اور گرسائی نالہ میں اتوار رات 9 بج کر 15 منٹ پر بھی دیکھی گئی۔ ڈرونز کو بہت اونچائی پر پرواز کرتے دیکھا گیا اور وہ فوراً پاکستانی علاقے کی طرف واپس لوٹ گئے۔
لائن آف کنٹرول پر ڈرونز کا من گھڑت پروپیگنڈا بی جے پی سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کر رہی ہے۔ اندرونی انتشار کی شکار بی جے پی سرکار سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے جنگی ماحول پیدا کررہی ہے۔ ڈرونز کا پروپیگنڈا بھارت میں پاکستان دشمنی بڑھا کر عوام کو جنگی ایجنڈے پر آمادہ کرنے کی سازش ہے۔ مودی نے خطے کے امن کو اپنی فسطائیت اور جنگی جنون کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پاکستان سے حالیہ جنگ میں عبرتناک شکست اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے باوجود باز نہ آئے اور ایک بار پھر گیڈر بھبکیاں دیتے ہوئے پاکستان کو برہموس میزائل حملے کی دھمکی دے ڈالی۔ اتر پردیش کے شہر وارانسی میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ اگر پاکستان نے دوبارہ کوئی گناہ کیا، تو یوپی میں بننے والے میزائل دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔مودی نے دعویٰ کیا کہ برہموس میزائل اب لکھنؤ میں تیار کیے جائیں گے، اور پاکستان میں صرف ان کا نام سن کر ہی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی کا حالیہ بیان بھارت کے اندرونی سیاسی دباؤ کو پاکستان دشمن بیانیے سے چھپانے کی ایک اور کوشش ہے۔پاکستان کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ماضی کی طرح اس طرح کی دھمکیوں کو غیر سنجیدہ اور انتخابی فائدے کے لیے دی گئی بیانات قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف نام نہاد ‘آپریشن سندور’ شروع کیا تھا، جس کا جواب پاکستان کی جانب سے ‘آپریشن بْنیان مرصوص’ کی صورت میں دیا گیا۔اس چند روزہ چنگ کے دوران بھارت کو اپنے رافیل طیاروں سے محروم ہونے اور کئی ایئربیسز پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت میں انتخابات کے قریب آتے ہی ایسے بیانات عام ہو جاتے ہیں، تاکہ شدت پسند بیانیے کے ذریعے ووٹرز کو متحرک کیا جا سکے۔
خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے باعث بین الاقوامی حلقے ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات کی بجائے دونوں ممالک کو سفارتی چینلز کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے پہلگام حملے میں مبینہ سکیورٹی غفلت، پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں انڈین طیاروں کے نشانہ بنائے جانے کی خبروں اور جنگ بندی کروانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں سے متعلق اپوزیشن کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے۔اپنی ایک گھنٹہ 40 منٹ طویل تقریر میں انھوں نے پاکستان سے زیادہ اپوزیشن جماعت کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ‘کانگریس پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے’۔ انڈیا میں دہشت گردی اور پاکستان اور چین سے متعلق سارے مسائل نہرو، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی کمزور اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پیدا ہوئے۔اگرچہ انھوں نے اہم سوالوں کا جواب دینے سے تو گریز کیا مگر ‘آپریشن سندور’ میں اپنے ملک کی فوجی کامیابیوں سے متعلق بہت سے پرانے دعوؤں کو دہرایا اور چند نئے دعوے بھی کیے۔مودی کا کہنا تھا کہ آپریشن سندور نے پاکستان کی فوجی طاقت کو نیست و نابود کر دیا۔ ‘اب پاکستان کو پتہ چل چکا ہے کہ اگر اس کی جانب سے دوبارہ کوئی دہشت گردانہ کاروائی ہوئی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اِسی لیے آپریشن سیندور کو ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے صرف روکا گیا ہے۔پاکستان کو اب انڈیا کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ ‘فوج نے آپریشن سندور کے دوران 22 منٹ کے اندر اندر سارے طے شدہ مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ پہلی بار پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جوہری دھمکیوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔مودی نے اس سوال پر کہ انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر حمایت نہیں ملی، کہا کہ دنیا کے سبھی ملکوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی تھی اور تین ممالک کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کو روکنے کے لیے نہیں کہا۔اگرچہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہا کہ انھیں کسی بھی عالمی رہنما نے جنگ بندی کے لیے نہیں کہا لیکن انھوں نے اتنا ضرور بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر نے انھیں نو مئی کی رات کو فون کیا تھا۔مودی کا دعویٰ تھا کہ اگر نہرو نے 1948 میں جب انڈین افواج نے پاکستانی فوج پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اپنی فوج کو پیچھے ہٹانے کا حکم نہیں دیا ہوتا تو کشمیر کا مقبوضہ حصہ اسی وقت واپس مل گیا ہوتا۔ اکسائی چن کا حصہ نہرو کی وجہ سے چین کے پاس چلا گیا کیوںکہ نہرو نے اسے یہ کہ کر واپس لینے کی کوشش نہیں کی کہ سنگلاخ بنجر زمینوں کے لیے تنازع پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں 38 ہزار مربع کلومیٹر کھونے پڑے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • امریکا:بھارت منشیات کی پیدا وار والےممالک میں شامل
  • ٹرمپ نے بھارت کو منشیات کی پیداواروالےممالک میں شامل کرلیا
  • پاکستان اور مالدیپ کے درمیان تجارت، سیاحت و دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور
  • پاکستان اور بھارت آج ایک اور کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے
  • بھارت کا ڈرون ڈراما
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • سپیکرقومی اسمبلی سے مالدیپ کی عوامی مجلس کے سپیکر کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال
  • پاکستان اور مالدیپ کے اسپیکرز کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید