چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت دونوں 2024 میں 12 ملین سے تجاوز کر گئی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت دونوں 2024 میں 12 ملین سے تجاوز کر گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 January, 2025 سب نیوز
بیجنگ: چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں چین کی نئی توانائی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت بالترتیب 12.888 ملین اور 12.
جو مسلسل دس سال تک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2024 میں1.284 ملین نئی توانائی کی گاڑیاں برآمد ہوئی ہیں جو 2023 کے مقابلے میں 6.7 فیصد زیادہ ہے ۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: نئی توانائی کی گاڑیوں کی
پڑھیں:
اکنامک سروے اور زرعی پیداوار
پاکستان اکنامک سروے 2024-25 پیش کردیا گیا ہے، جس میں شرح نمو 2.7 فی صد حاصل ہوگی، بتایا گیا یعنی کم سہی مگر مثبت کبھی منفی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ محصولات میں اضافہ ہوا 26 فی صد اضافہ اچھی بات ہے لیکن عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لیجیے برآمد 6.8 فی صد بڑھ گئی۔
بہت زیادہ جتن کیے تھے لیکن آئی ایم ایف کے مشورے ہی رکاوٹ بن رہے ہیں یعنی بجلی،گیس کی قیمت بڑھائے چلے جاؤ، پٹرولیم کی قیمت بھی بڑھتی رہے۔ ایسے ماحول میں اتنا اضافہ بھی غنیمت ہے، مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
دو سال قبل حکومت نے کنٹرول کر لیا تھا لیکن کنٹرول کرنے والے ماہر نہیں تھے ورنہ وہ چیزکبھی نہ روکتے جن سے برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے جن سے کارخانے چل رہے ہوتے ہیں لیکن سب سے تشویش ناک بات یہ ہو گئی کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی ہوئی ہے۔ بھارت کی اصل خواہش یہی ہے کہ پانی کی کمی ہو اور فصلیں کم سے کم پیدا ہوں۔ اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 13.5 فی صد کی کمی کو کم سمجھنے کے بجائے بہت زیادہ کمی سمجھنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
شرح نمو میں اضافے کا عدد 2.7 فی صد کا حاصل ہونا خزاں کے موسم میں امید بہار ہے اور ترقی کی نوید بھی ہے، لیکن اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں کیونکہ ترقی کی زمین تو پیاسی رہ گئی۔ کھیتوں سے ایسے اشارے مل گئے کہ پانی کم ملا ہے، پیاس بڑھی ہے۔ اب پانی کی کمی کا متبادل کب کیسے کس وقت استعمال کرنا ہے، شاید محکمہ زراعت کو خبر نہ ہوئی کہ کسانوں کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں جن کا فوری مداوا ضروری ہے۔
اس کے لیے ڈرپ ایری گیشن کا راستہ اختیار کر کے یعنی کم پانی میں زیادہ پیداوار کا حصول، ریزرو چھوٹے آبی ذخائر چھوٹے بڑے تالاب تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کر لیا جائے۔ آج کل تو ڈرونز پر سروے ہو سکتے ہیں۔ ایپس پر کسان کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اب کسان کن حالات سے گزر رہا ہے اس پر قرضوں کا بوجھ بھی ہے، اس کی آمدن کم سے کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب اس کا اثر آیندہ برس کے شرح نمو پر مرتب ہوگا۔
ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ خوش آیند بھی ہے ۔حکومت نے اقتصادی سروے میں کھیتوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو واضح کر دیا ہے۔ ساڑھے تیرہ فی صد پیداوار میں کمی کا مطلب ہے ساتواں حصہ۔ ایسے میں کسان کی امید تو ٹوٹ رہی ہے۔ کچھ موسم کی بے رخی بھی اب دست و گریباں ہو چکی ہے۔
موسمیاتی کلائیمیٹ چینج نے اپنا وار سب سے پہلے غریب کسان کی کٹیا پرکردیا ہے۔ کسان کو بلا سود قرض دیں بلکہ قرض حسنہ دیں۔ اگر وہ کم پیداوار حاصل کرتا ہے اور نقصان میں چلا جاتا ہے تو قرض معاف ہونا چاہیے، قدم قدم لمحے لمحے اس کی رہنمائی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اس کو آگاہ کریں تو شاید کھیت کی تقدیر بدل جائے، کسان خوش حال ہو جائے۔کلائیمیٹ چینج کا تو اثر ہر حال میں پڑ رہا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زمین اپنی زرخیزی کھو رہی ہے، بیج کھاد ایندھن ان سب کی قیمتوں میں 20 سے 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی زرعی معیشت پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ غذائی سلامتی پر گہرا زخم بھی ہے، اب آیندہ برس گندم درآمد کریں گے۔ کپاس بھی درآمد کریں گے اور درآمدی بل بڑھ کر رہے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ کلائیمیٹ چینج کے اثرات نے پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان کے کھیتوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
اوپر سے آئی ایم ایف نے بھی کسانوں پر ہلہ بول دیا ہے۔ سبسڈی ختم کرو، فنانسنگ تک محدود رسائی، کسانوں کے لیے آئی ایم ایف ایسی پالیسی دے رہا ہے جس سے کسان کی خوشحالی روٹھ کر رہ جائے گی۔ اگر کھیتوں نے آیندہ بھرپور فصل سے نوازا تو کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اکنامک سروے 2025-26 میں لکھا ہوگا کہ اہم فصلوں کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابل 13 فی صد کمی نے اپنا رنگ ایسے جمایا اب فصلوں نے اپنا رخ ایسا دکھایا، زمین نے وہ نوازشیں کیں کہ 13 فی صد کا کلائیمیٹ چینج یا بدلاؤ ایسا آیا کہ 13 سے 31 فی صد اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ خواب پورا ہوگا لیکن ڈرائنگ روم اے سی میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں بلکہ کھیتوں تک آئیں آئی ایم ایف کے بغیر کسانوں سے ملنے اور ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں۔