ایران یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مکالمت میں مصروف
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) گزشتہ دو ماہ سے کم عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے جب تہران کا وفدتین یورپی طاقتوں سے گفتگو کر رہا ہے۔ اس سے قبل نومبر میں جنیوا میں تہران اور تین یورپی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات ہوئے تھے۔
جرمن وزیرخارجہ کے مطابق، ''یہ مذاکرات نہیں ہیں‘‘۔ دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اسے فقط ''مشاورت‘‘ قرار دیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا، ''پیر اور منگل کو طے شدہ اس بات چیت میں مختلف موضوعات شامل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات چیت کا مقصد ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ہے، جب کہ ایران مخالف فریقین کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات کو بھی سننا چاہتا ہے۔
(جاری ہے)
جمعرات کو فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ یہ اجلاس اشارہ ہے کہ ای تھری ممالک ایران کے انتہائی پریشان کن جوہری معاملے کے سفارتی حل کی کوشش پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں، جب اگلے ہفتے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھال رہے ہیں۔ اپنے سابقہ دور میں ٹرمپ نے ایران پر ''شدید دباؤ‘‘ کی پالیسی اپنائی تھی جب کہ دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے سے بھی اپنے ملک کو نکال لیا تھا اور ایران پر ایک مرتبہ پھر شدید تر پابندیاں نافذ کر دی گئی تھیں۔
واشنگٹن کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران اس معاہدے پر عمل کا دعویٰ کرتا رہا اور ساتھ ہی جوہری ڈیل میں طے کردہ رعایتوں کے لیے یورپی ممالک پر دباؤ ڈالتا رہا۔ تاہم بعد میں ایران نے بھی دھیرے دھیرے اس معاہدے سے دوری اختیار کر لی۔
گزشتہ ہفتے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام میں تیزی 'بریکنگ پوائنٹ‘ کے قریب لے جا رہی ہے۔
تاہم ایران نے ان بیانات کو ''بے بنیاد‘‘ اور ''فریب پر مبنی‘‘ قرار دیا تھا۔دسمبر میں، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے تہران پر بغیر ''کسی معقول سویلین جواز‘‘اپنی اعلیٰ سطح پر افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ''غیر معمولی سطح‘‘ تک بڑھانے کا الزام لگایا تھا۔
تینوں یورپی ممالک کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا، ''"ہم ایران کو جوہری ہتھیار سازی کرنے سے روکنے کے لیے تمام سفارتی ذرائع استعمال کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، جس میں ضروری ہونے پر اسنیپ بیک کا استعمال بھی شامل ہے۔
‘‘واضح رہے کہ اسنیپ بیک میکانزم، 2015 کے جوہری معاہدے کا حصہ ہے، جو دستخط کنندگان کو ''واضح معاہدہ شکنی‘‘کی صورت میں ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ع ت، ر ب (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایران پر
پڑھیں:
قطر اور فلسطین کے ساتھ بنگلہ دیش کا غیر متزلزل اظہار یکجہتی، اسرائیل کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ
بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے دوحہ میں منعقدہ عرب اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی شدید مذمت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے، وزیراعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تجویز دیدی
محمد توحید حسین نے کہا کہ قطر کی خودمختار سرزمین پر اسرائیل کا بلاجواز اور غیر اعلانیہ حملہ صرف قطر پر نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کی عزت و وقار پر حملہ ہے۔
مشیر خارجہ نے اس اقدام کو اسرائیل کی ایک اور غیرذمہ دارانہ مہم جوئی قرار دیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی انسانی قوانین اور بار بار کی گئی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔
اجلاس میں بنگلہ دیش نے تمام او آئی سی رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی اشتعال انگیزی اور جارحیت کو روکنے کے لیے مشترکہ سفارتی، سیاسی اور اقتصادی اقدامات کریں۔
مشیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اجتماعی طور پر اسرائیل کو اس کھلی جارحیت کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ہوگا اور اس کی غیرقانونی کارروائیوں کا فوری خاتمہ یقینی بنانا ہوگا۔
پیر کو منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کی صدارت قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کی۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل، حسین ابراہیم طحہ اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل، احمد ابو الغیط نے استقبالی کلمات میں تنظیموں کے منشور کی بنیاد پر مسلم امہ کے اجتماعی امن و سلامتی کے تحفظ پر زور دیا۔
مزید پڑھیے: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
اجلاس میں 24 ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت نے شرکت کی جب کہ دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ یا اعلیٰ حکام نے اپنے وفود کی قیادت کی۔
تمام رہنماؤں نے 9 ستمبر 2025 کو قطر پر اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مسلم ممالک کی سلامتی، خودمختاری اور وقار کے تحفظ کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
شرکا نے اسرائیل سے غزہ پر قبضے کے خاتمے اور مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں غزہ کے عوام کے لیے بلا رکاوٹ انسانی امداد اور خوراک کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا کیونکہ فلسطینی مرد و خواتین بھوک سے مر رہے ہیں۔
رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قیادت کو مسلم ممالک کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی اور فلسطین میں نسل کشی کے جرائم پر انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
مزید پڑھیں: موساد قطر میں اسرائیلی حملے کی مخالف اور فیصلے سے ناراض تھی، رپورٹ میں انکشاف
مشیر خارجہ کے ہمراہ اجلاس میں بنگلہ دیش کے ایڈیشنل فارن سیکریٹری ایم فرہادالاسلام، او آئی سی میں بنگلہ دیش کے مستقل نمائندے ایم جے ایچ جابد، اور قطر میں بنگلہ دیش کے سفیر محمد حضرت علی خان نے بھی شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی سربراہی اجلاس او آئی سی بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی اسرائیل کی مذمت بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین قطر