Jasarat News:
2025-06-06@03:39:50 GMT

ہمارے سماجی و معاشرتی المیے

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

ہمارے سماجی و معاشرتی المیے

شیطان روزآنہ اپنے چیلوں (شاگردوں) سے دن بھر کی کارکردگی کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے آج ایک قتل کروا دیا، دوسرا کہتا ہے میں نے دو نوجوان لڑکے اور لڑکی کو بہکایا اور وہ زنا کے مرتکب ہوگئے، ایک کہتا ہے میں نے آج ایک پکے نمازی کی نماز فجر قضا کروادی اس طرح اور دیگر اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں ایک شیطان کہتا ہے کہ میں نے آج ایک میاں بیوی کے بیچ جدائی ڈلوادی شوہر نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی یہ رپورٹ سن کر بڑا شیطان اپنے اس شاگرد کو گلے لگالیتا ہے۔ اسلام میں یہ وہ جائز کام ہے جس کو آپؐ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اور دیگر برائیاں اور گناہ کے کام تو اسلام میں تو ویسے ہی منع ہیں۔ لیکن شیطان کا اس عمل پر خوش ہونا اس لیے بنتا ہے کہ کسی معاشرے کی تباہی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ طلاق میں دو افراد ہی جدا نہیں ہوتے بلکہ دو خاندان ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ اور اگر ان کے بچے ہوں تو ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ عدالتوں کی سیڑھیوں پر ایسے بچوں اور ان کی مائوں کے رونے کی چیخیں در ودیوار کو ہلا دیتی ہیں جب کسی بچے کے بارے میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے باپ کے حوالے کیا جائے۔ ہمارے ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بہت خوفناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ خواتین اس وقت طلاق یافتہ ہیں۔ لاہور کی فیملی کورٹس میں سال بھر کے دوران 13ہزار سے زائد گھرانے ٹوٹ چکے اور روزآنہ خلع کے 40 سے زائد مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔

ایک لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر آتی ہے تو اس کی پہلے والی جیسی بات نہیں ہوتی۔ جس طرح کوئی شیشے کا برتن چٹخ جائے تو اسے احتیاط سے برتنا پڑتا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسی بچیوں کے لیے ان کا میکہ بعض اوقات ان کی سسرال سے زیادہ خوفناک ہوجاتا ہے۔ وہی بہن بھائی جن سے شادی سے پہلے نوک جھونک ہوتی رہتی تھی اور ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی رہتی تھی لیکن کچھ دیر بعد سب نارمل ہوجاتا اور اب تو کوئی بات ہو تو دل کو بڑی ٹھیس لگتی ہے۔ ایک دفعہ مولانا طارق جمیل بتارہے تھے کہ ویسے تو بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنے بال بچوں پر خرچ کیا جائے۔ لیکن اگر گھر میں کوئی مطلقہ یا بیوہ لڑکی ہو تو اس پر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ میں نے کہا مہنگائی، بیروزگاری، چوری و ڈکیتی، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، پانی کا بحران اور دیگر مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں یہ سب چیزیں اپنی جگہ تو ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ ان گھرانوں کا ہے جہاں گھر میں کوئی بیوہ یا مطلقہ لڑکی ہو اور پھر اسی سے جڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی بچیوں کے رشتے مشکل سے آتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں کنواری لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں کا کال ہے نہ کہ بیوہ اور مطلقہ کے لیے کوئی ڈھنگ کا رشتہ آئے۔ چلیے بیوہ کو تو پھر کوئی مناسب بر مل جاتا ہے، اصل مسئلہ مطلقہ کا ہوتا ہے کہ اس کا رشتہ جب آتا ہے تو کئی سوالات اٹھتے ہیں، کیوں طلاق ہوئی کہیں لڑکی مزاج کی تیز تو نہیں ہے، کردار کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یعنی ساری خامیاں لڑکی ہی میں تلاش کی جاتی ہیں۔ نئی شادی شدہ خواتین کو سوچنا چاہیے کہ ہماری جو ارینج میرج ہوئی ہے تو والدین نے بہت کچھ دیکھ بھال کے اور اچھی طرح چھان پھٹک کرکے ہی ہاں کی ہوگی، اس لیے اب شادی کے بعد شوہر میں کچھ چیزیں آپ کے ذوق و مزاج کے خلاف ہوں تو بار بار یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پتا نہیں ہمارے ماں باپ نے کیا دیکھ کر شادی کی، بلکہ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ رشتوں کے اس بحران میں آپ کو رشتہ مل گیا ورنہ اپنے خاندان میں یا اپنی ہی سہلیوں میں دیکھیں کئی ایسی لڑکیاں ہوں گی جو آپ سے عمر میں زیادہ ہوں گی اور گھروں میں بیٹھی ہیں اس سے احساس تشکر پیدا ہوتا ہے۔

ایک دفعہ نبی اکرمؐ جارہے تھے کہ راستے میں کچھ کچھ لڑکیاں ملیں آپؐ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے عورتوں! تم اپنے ماں باپ کے گھروں میں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہو پھر جب تمہیں رشتہ مل جاتا ہے اور تمہاری شادی ہوجاتی ہے تو تم اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔ ہمیں بہت کم ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کیا اور اسے دوسرا شوہر کوئی بہت اچھا مل گیا ہو، پھر ان کی قسمت میں یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی کی دوسری بیوی بن کے رہیں یا کسی اپنے سے زیادہ عمر والے کے ساتھ شادی ہوجائے۔ یہ ارینج میرج کی بات ہے لیکن جہاں پسند کی شادی کی جاتی ہے وہاں معاملات جلد ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ آج کل تو لڑکی کے ماں باپ عموماً لڑکی کی پسند کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سروے رپورٹ آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا جتنے گھر ٹوٹے ہیں یعنی میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوئی ہے، تو اس میں زیادہ تعداد ان جوڑوں کی تھی جنہوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ لیکن سو فی صد ایسا نہیں ہے اکثر پسند کی شادیاں عمر بھر چلتی ہیں اسی طرح یہ بھی نہیں ہے کہ ارینج میرج سو فی صد کامیاب ہی ہوں ان میں بھی علٰیحدگیاں ہوجاتی ہے لیکن اس کا تناسب کم ہوتا ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے سانحے کی نوبت کیوں آتی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں پہلی بات تو یہ کہ صبر و برداشت کی کمی دونوں فریقین میں ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ میاں بیوی اگر خاندان سے الگ زندگی گزار رہے ہیں تو وہاں کم لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہوتا ہے وہاں جلد ہی اختلافات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہی خواتین جو چاند سی بہو ڈھونڈ کر لاتی ہیں اور وہ بہنیں جو اپنے بھائی کے لیے حور پری تلاش کرتی ہیں چاہے وہ خود کیسی ہی ہوں۔ شادی کے کچھ عرصے بعد یہی چاند سی بہو کلموہی ہوجاتی ہے اور بہنوں کی نظر میں حور پری ’’دور پرے‘‘ ہوجاتی ہے۔ اور دوسری طرف لڑکی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی ساس کا بڑی محبت و اخلاس سے استقبال کرتی ہے نندوں کو پیار سے گلے لگاتی ہے لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد یہی ساس خناس بن جاتی ہے اور نند بہت بڑی گند ہوجاتی ہے۔ پہلے زمانے میں شادی سے پہلے لڑکیوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ دیکھو بیٹا ایک چپ ہزار بلائوں کو ٹالتی ہے۔ فرماں برادر بچیاں اسی نصیحت پر عمل کرتی تھیں (جو کہ بہت مشکل کام ہے) تو ان کی پوری زندگی بغیر کسی بڑی لڑائی جھگڑے کے خیر و عافیت سے گزر جاتی تھی۔

ایک اہم وجہ جو میرے نزدیک سب سے پہلی وجہ ہے کہ ہم دین کی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ اگر ہمارے دل میں خوف خدا ہے (زبانی نہیں عملاً) تو ہمیں خود اپنی خامیوں پر غور کرنا چاہیے لیکن یہاں تو ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایک گھر کو بنانے میں زیادہ ذمے داری بیوی کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھنے کی کوشش کرے لیکن مردوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جن والدین نے اپنی جگر کا ٹکڑا آپ کے حوالے کیا ہے آپ اس کی قدر کریں۔ خواتین کے ایک اجتماع میں ایک عالم دین تقریر کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ ایک دفعہ سیدہ بی بی فاطمہ (یہ بھی ذہن میں رہے کہ بی بی فاطمہ کون ہیں جنت کی خواتین کی سردار اور افضل الانبیاء کی بیٹی) آپؐ کے پاس آئیں اور کہا کہ میری سیدنا علیؓ سے لڑائی ہوگئی میں ستر مرتبہ (کتنی مرتبہ ستر مرتبہ) انہیں منانے گئی وہ مان گئے اور اب ہمارا میل ہوگیا آپؐ نے فرمایا کہ اے فاطمہ اگر علی کی ناراضی کے دوران تمہارا انتقال ہوجاتا تو میں تمہاری نماز جنازہ نہیں پڑھاتا۔ ان ہی عالم صاحب نے دوسرا واقعہ بتایا کہ سیدہ خدیجہؓ بیوہ تھیں اور بڑے کاروبار کی مالک تھیں وہ آپؐ کا بہت خیال رکھتی تھیں اپنا سارا کاروبار آپؐ کے حوالے کردیا تھا وہ بڑی خدمت کرتی تھیں آپؐ جب گھر جاتے تو وہ کھانا لے کر آتیں ایک دفعہ وہ کھانا لارہی تھیں کہ اتنے میں حضرت جبرائیلؑ آگئے اور نبی کریم ؐ سے کہا کہ سیدہ خدیجہ آپؐ کے لیے کھانا لارہی ہیں آپؐ کی بڑی خدمت کرتی ہیں،آپؐ نے کہا ہاں وہ تو روز کھانا لاتی ہیں اور خدمت بھی کرتی ہیں پوچھا آپؑ کیسے آئے، حضرت جبرئیلؑ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ خدیجہ کو سلام بھیجا ہے میں وہ سلام لے کر آیا ہوں۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اے میری بہنوں شوہر غلطیاں کرتے ہیں آپ صبر کریں اللہ ان سے خود پوچھ لے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایک دفعہ ہوتا ہے کی شادی جاتی ہے ماں باپ نہیں ہے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

میڈیا نوعمر خاتون انفلوئنسر کا قتل

ہمارے خاندانی معاشرے کی معروف سوچ ہے کہ،’’بیٹیاں گھر میں رحمت لے کر آتی ہیں۔‘‘ لیکن کسے معلوم کہ کل ان کی کوئی معصوم بیٹی کسی نوجوان کی مریضانہ سوچ کی نذر ہو کر قتل ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں شادی کے کچھ سالوں بعد اولاد نہ ہو تو لوگ فوراً پریشان ہوتے ہیں، اور جس شادی شدہ جوڑے کو پہلی بیٹی پیدا ہو اسے ’’خوش قسمت‘‘ گردانا جاتا ہے۔ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ثنا ء یوسف جیسے قتل کے واقعہ کہ بعد کچھ جوڑوں کو اولاد کی تمنا بھی کم ہو گئی ہو گی، چہ جائیکہ والدین گھر میں بیٹی جیسی ’’رحمت‘‘ کے آنے کا انتظار کریں۔ اس ملک میں جہاں ہر قدم پر ہمارے لئے موت کے راستے کھلے ہیں وہاں اولاد پیدا کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ کیا خبر کہ کل ایک اور بیٹی ’’ثناء‘‘ بن جائے۔
لیکن وہ کون والدین ہیں کہ جو کسی کی بیٹیوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بیٹی کے آنے کا خواب نہ جاگتا ہو کہ کاش میری بھی ایک بیٹی ہوتی۔ آپ آج بھی کسی بیٹی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے ہیں تو آپ کا سر بھی آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے کہ مالک صرف ایک بیٹی عطا فرما دے۔ لیکن اس اندوہناک واقعہ کے بعد کتنے لوگ ہوں گے جن کے دل سے خدا سے بیٹی مانگنے کی تمنا نکل گئی ہو گی کہ بیٹیاں قتل کرنے کے لئے نہیں ہوتی ہیں؟
سوشل میڈیا جہاں علمی، کاروباری اور سماجی روابط کے فروغ کا ذریعہ ہے وہاں ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں قتل ایسے انسانیت سوز جرائم کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے۔ 17سالہ کامیاب ٹک ٹاکر ثنا ء یوسف کا قتل پہلی واردات نہیں جو حسد اور ٹک ٹاکری کی وجہ سے ہوئی ہے اور جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ملک بھر میں اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے۔ تھل کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر اقرا کو گزشتہ ہفتے آٹھویں فیل کزن نے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والی یتیم لڑکی اب پیسے کمانے لگی تھی۔ لاہور کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر ایات مریم کو چند ماہ پہلے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دینے والے شوہر سعد نے اس لئے قتل کیا کہ وہ کاروبار کیلئے تیس لاکھ مانگ رہا تھا جو اس نے نہیں دیئے تو بیوی کو گلہ دبا کر قتل کیا اور اس کی گاڑی لے کر بھاگ گیا۔ جب وہ گرفتار ہوا تو اس نے اپنی مقتولہ بیوی پر غیر مردوں سے تعلقات کا الزام لگا دیا۔ جبکہ ملتان کی قندیل بلوچ نے بھائی کو موبائل شاپ بنا کر دی تھی، گھر کے سارے اخراجات اٹھاتی تھی لیکن پانچویں فیل بھائی نے غیرت کا نام لے کر اسے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ وہ دوکان میں مزید ’’سامان‘‘ ڈالنے کیلئے اس کو دس لاکھ روپے نہیں دے رہی تھی۔
آئی جی اسلام آباد کی پریس کانفرنس سے وضاحت ہو گئی ہے کہ قاتل 17سالہ نوجوان میڈیا انفلوئنسر ثناء یوسف کی قربت حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں ناکامی کے بعد اس نے اسے اس روز قتل کیا جب وہ چند گھڑیاں پہلے اپنی 17ویں سالگرہ کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ 22 سالہ قاتل عمر خود بھی کم فالورز رکھنے والا ٹک ٹاکر تھا۔ اس نے ثناء کو ملنے کی بارہا کوشش کی مگر وہ ہر دفعہ انکار کرتی رہی جس کے بعد عمر کے دل میں حسد اور مریضانہ انتقام پیدا ہوا جس کا نتیجہ اس نوجوان کے ہاتھوں ظالمانہ قتل کی صورت میں نکلا۔
سوشل میڈیا کی ترقی اور جدید موبائل فونز کے بعد جرائم میں اضافے اور اس نوع کی قتل جیسی وارداتوں میں اضافہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اس قسم کے جتنے بھی قاتل ہیں وہ ان پڑھ، جاہل اور ناکام زندگی گزارنے والے ہیں، وہ خود تو زندگی میں کچھ نہیں بن سکے تھے مگر انہوں نے اپنی جان پہچان والی خواتین یا خونی رشتوں والی کامیاب عورتوں کے قریب ہونے کی کوشش کی یا ان سے مالی مدد لینا چاہی مگر جب وہ کامیاب نہیں ہوئے تو انہوں نے قتل جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔ کوئی اپنی ناکام زندگی پر ان خواتین کی کامیابیوں سے حسد کرتا تھا اور کوئی ان کے زریعے امیر ہونا چاہتا تھا۔ایات مریم کے شوہر، قندیل بلوچ کے بھائی اور اقرا کے کزن نے قتل کی وجہ غیرت بتائی۔ ثنا ء کے میٹرک پاس قاتل نے بیان دیا کہ، ’’وہ مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی‘‘ ثناء یوسف کے قاتل عمر حیات عرف کاکا کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ عمر حیات کا کہنا ہے کہ میں ثناء یوسف سے حد سے زیادہ محبت کرتا تھا، لیکن وہ اسے خاطر میں نہیں لاتی تھی، جس کے باعث وہ جنون میں مبتلا ہو کر یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ لیکن قاتل کی ناہموار ذہنی سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرے کا اجتماعی نفسیاتی رجحان کارفرما نظر آتا ہے کہ یہ سارے قاتل جھوٹے اور غلیظ ذہنیت رکھنے والے ذہنی مریض ہیں۔ اگر ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج شکایات اور ایف آئی آرز کا تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں حسد، منافقت اور راتوں رات امیر بننے کی آگ کچھ زیادہ ہی لگی ہوئی ہے۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کریکٹر بلڈنگ کے الگ سے ادارے ہی نہیں ہیں۔ یہ ہمارا ہی ملک و معاشرہ ہے جہاں بیویوں کی چوری چھپے ویڈیو بنانے اور ان کی بنیاد پر سسرال والوں کو بلیک میل کرنے والے بھی موجود ہیں، یہاں دھوکہ سے نشہ اور شربت پلا کر عریاں ویڈیو بنانے والے ہیں، جو محبت کے جال میں پھنسا کر گندی ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر ’’بلیک میل‘‘ کرتے ہیں۔ یہاں کسی لڑکی کو ویڈیو کے جال میں پھنسا کر اسے مزید غلیظ کام کرنے پر مجبور کرنے والے سفاک لوگ بھی ہیں۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں بہاولپور یونیورسٹی جیسے شرمناک واقعات پیش آتے ہیں۔
ہمارا ملک سوشل میڈیا کی ترقی کے دوران ایسا خطرناک معاشرہ بنتا رہا ہے جہاں تعلیمی اداروں میں جانے والی نیک اور پرہیز گار لڑکیاں بھی خوف محسوس کرنے لگی ہیں۔ دوسری طرف دینی مدارس میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو زیادتیاں یا ریپ وغیرہ ہوتے ہیں اس کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ ایسی جاہلانہ اور غیرذمہ دارانہ اجتماعی نفسیات ہے جو وقت کے ساتھ جڑ پکڑتی جا رہی یے۔ہمارے ملک میں عورت اور مرد کے رشتہ کو ایک غیرسنجیدہ موضوع بنایا جا رہا ہے حالانکہ اس رشتے نے ازل سے ہے ابد تک قائم رہنا ہے۔ کسی بھی ملک و معاشرے کے قوانین اور معاشرتی بندھن انسانوں نے طویل سفر کے تجربات کے بعد قائم کیئے ہوتے ہیں، اگر ان کو میڈیا کی ترقی اور آزادی کے نام پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو امکان ہے کہ ثناء کے قتل جیسی مزید وارداتیں بھی ہوں گی۔ پاکستانی معاشرہ اس لئے بدترین ہے کہ یہاں مذہب اور سیاست کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ سری لنکن منیجر کو زندہ جلانے جیسے واقعات بھی ہمارے ہی ملک میں پیش آتے ہیں اور ثناء یوسف کے قتل جیسے خوفناک واقعات بھی اسی ملک میں رونما ہوتے ہیں، اس لئے کہ مجرمین کو فوری انصاف کے کٹہرے میں کڑی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ کوئی خاتون عربی زبان کے الفاظ والا لباس پہن لے، بھلے اس پر کچھ بھی لکھا ہوا ہو تو شدت پسند بھرے بازار میں اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے گھیر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی اس سطحی اور بھیانک نفسیات کو اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ اس نوع کے واقعات میں مجرمان کو فوری اور کڑی سے کڑی سزا دی جائے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہوں۔ ثنا کے قاتل کی فوری گرفتاری پولیس کی قابل تحسین کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس نے تو ثناء کے قاتل کو گرفتار کر لیا اب عدلیہ کی باری ہے کہ وہ قاتل کو کیفر کردار تک پہچا کر لواحقین کو جلد سے جلد اور بروقت انصاف فراہم کریں، اور مجرم کو عبرت کا نشان بنائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کو ممکن بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم اتنے بھی غلط نہیں تھے
  • میڈیا نوعمر خاتون انفلوئنسر کا قتل
  • امیر ترین یوٹیوبر مسٹر بیسٹ شادی کیلئے والدہ سے اُدھار پیسے کیوں لے رہے ہیں؟
  • بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن بے تاب بھی نہیں، پاکستان
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ہمارے لیے آئینی اور قانونی راستے بند کر دیے گئے ہیں، رؤف حسن
  • 40 کروڑ سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوبر ’مسٹر بیسٹ‘ شادی کے لیے پیسے ادھار لیں گے!
  • ماہرہ خان نے نئی فلم ’لو گرو‘ کے گانے میں اپنی شادی کا کونسا جوڑا پہنا؟
  • مسٹر بیسٹ نے شادی کے اخراجات کے لیے والدہ سے ادھار لے لیا
  • نسل کش روایتیں، سماجی پہلو اور نفسیاتی اثرات