پابندی کا توڑ: کیا ٹک ٹاک اپنا امریکی آپریشن ایلون مسک کو فروخت کردے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
امریکا میں متوقع پابندی کے خطرے کے پیش نظر چینی حکام نے سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے امریکا میں آپریشنز ایلون مسک کو فروخت کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کے قانون کی منظوری کے بعد ٹک ٹاک کی ملکیتی کمپنی بائیٹ ڈانس مختلف آپشنز پرغور کررہی ہے، جن میں سے ایک اس ایپ کو امریکی سرمایہ دار ایلون مسک کو فروخت کرنا بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پابندی رکوانے میں ٹک ٹاک کو ناکامی کا سامنا
واضح رہے کہ امریکا کو ٹک ٹاک کی ملکیتی کمپنی بایئٹ ڈانس کے شیئرز چینی حکومت کے پاس ہونے پر اعتراض ہے، جس سے امریکا کو خدشہ ہے کہ اس ایپ پر چین کی حکومت اثرانداز ہوسکتی ہے۔
صدر جو بائیڈن کی طرف سے منظور کردہ قانون کے مطابق ٹک ٹاک کو 19 جنوری تک خود کو بائیٹ ڈانس سے الگ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اس پر پابندی لگ سکتی ہے۔
اس فیصلے کے خلاف بائیٹ ڈانس نے امریکی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ کمپنی میں چینی حکومت کے شیئرز سے اس کے چین سے باہر آپریشنز پر کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی چینی حکومت اس پر اثرانداز ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ٹک ٹاک مونیٹائزیشن کب تک ممکن ہے؟
دوسری طرف نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ ان کے حلف لینے تک اس ایپ پر پابندی نہ لگائی جائے تاکہ وہ اس کا کوئی سیاسی حل نکال سکیں۔
اگر ٹک ٹاک اور امریکی انتظامیہ 19 جنوری سے قبل کسی تصفیے تک نہیں پہنچ پاتے تو ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی لگ سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
elon musk tik tok ban ایلن مسک ٹک ٹاک.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور چین کے درمیان ٹک ٹاک پر جاری ایک سال سے زائد پرانا تنازع بالآخر ختم ہوگیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک امریکا میں کام جاری رکھے گا۔ اس معاہدے کے مطابق ایپ کے امریکی اثاثے چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے لے کر امریکی مالکان کو منتقل کیے جائیں گے، جس سے یہ طویل تنازع ختم ہونے کی امید ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف ٹک ٹاک کے 170 ملین امریکی صارفین کے لیے اہم ہے بلکہ امریکا اور چین، دنیا کی دو بڑی معیشتوں، کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کی بھی ایک بڑی کوشش ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس ٹک ٹاک پر ایک معاہدہ ہے، بڑی کمپنیاں اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔” تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند قرار دیا اور کہا کہ اس سے اربوں ڈالر محفوظ رہیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا، “بچے اسے بہت چاہتے ہیں۔ والدین مجھے فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ اسے اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں، اپنے لیے نہیں۔”
تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ریپبلکن اکثریتی کانگریس کی منظوری ضروری ہو سکتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے 2024 میں بائیڈن دورِ حکومت میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے بیچنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اس قانون کی بنیاد یہ خدشہ تھا کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اسے جاسوسی یا اثرورسوخ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد میں ہچکچاہٹ دکھائی اور تین بار ڈیڈ لائن میں توسیع کی تاکہ صارفین اور سیاسی روابط ناراض نہ ہوں۔ ٹرمپ نے یہ کریڈٹ بھی لیا کہ ٹک ٹاک نے گزشتہ سال ان کی انتخابی کامیابی میں مدد دی۔ ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر 15 ملین فالوورز ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی حال ہی میں اپنا سرکاری ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ کیا ہے۔