خیبرپختونخوا کو درپیش سیکیورٹی اور گورننس چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
جنگ زدہ صوبے یعنی خیبرپختونخوا کو گزشتہ کئی برسوں سے خطرناک نوعیت کے سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ بیڈ گورننس کے بدترین قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ صوبہ انتظامی طور پر دیوالیہ ہونے کوہے، تاہم صوبائی حکومت، اپوزیشن اور دیگر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کو جاری صورتحال اور اس کے نتائج کا کوئی ادراک نہیں ہے۔
گورننس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 6مہینوں کے دوران صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا محض 13 فیصد حصہ خرچ کیا گیا ہے، اور اسی پارٹی کی سابق صوبائی حکومت کے تقریباً 175 مختلف منصوبے اربوں خرچ کرنے کے باوجود تکمیل سے قبل بند کیے جا چکے ہیں۔
صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی صوابدید پر خرچ کیا جا رہا ہے، اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے آبائی ضلع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں ان چند مہینوں کے دوران اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، اور تمام پراجیکٹس وزیر اعلیٰ کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کی سرپرستی میں جاری و ساری ہیں۔
فیصل امین گنڈاپور قومی اسمبلی کے رکن ہیں، مگر رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ نہ صرف صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں، بلکہ پراونشل افیئرز سے متعلق بعض اجلاسوں کی صدارت بھی کرتے رہے ہیں۔
اس وقت صوبے پر ایک جہاز نما کابینہ مسلط ہے، جس کے ارکان کی تعداد 33تک پہنچ گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی پشاور منتقلی کے بعد متعدد دیگر ارکان اس کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔ کابینہ ارکان میں 16 وزرا، 4 مشیر اور 12 معاونین خصوصی شامل ہیں، جن میں تقریباً نصف درجن غیر منتخب ہیں۔
گورننس کی حالت یہ ہے کہ کابینہ سے دوسری بار نکالی گئی مشعال یوسفزئی اب بھی بہت قیمتی سرکاری گاڑی اور ملازمین استعمال کررہی ہیں، کیونکہ وہ بشریٰ بی بی کی ترجمان کے عہدے پر براجمان ہیں۔
کرپشن کی حالت یہ ہے کہ 4وزرا کے خلاف اینٹی کرپشن اور بعض دیگر اداروں میں آن دی ریکارڈ تحقیقات جاری ہیں۔ حال ہی میں صرف محکمہ صحت میں تقریباً ساڑھے 4ارب روپے کے کرپشن کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح صوبے کے تقریباً 30یونیورسٹیوں میں سے 19 مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں اور دیوالیہ ہونے کو ہیں۔ یہاں تک کہ خسارہ دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ایک عجیب وغریب قسم کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک فارمولا طے کیا کہ بعض یونیورسٹیوں کی اضافی زمینیں فروخت کی جائیں گی، جس پر سخت نوعیت کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
بیوروکریسی کے مختلف کیڈرز نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر مختلف اوقات میں احتجاج اور ہڑتال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، اور ان کے درمیان شدید تناؤ موجود ہے۔ صوبائی کابینہ 3 سے 4 گروپوں میں تقسیم ہے، اور مرکزی قائدین اپنے اپنے گروپ کو آگے بڑھانے کی کوشش اور لابنگ میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کا دوسرا المیہ یا مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کی کارکردگی بھی عملاً نہ ہونے کی برابر ہے اور ان تمام چیلنجز سے اپوزیشن لاتعلق دکھائی دیتی آرہی ہے۔ وفاقی کابینہ میں صوبے کو جو ایک ڈیڑھ وزارتوں کی نمائندگی ملی ہے وہ بھی غیر متعلقہ وزارتیں ہیں۔
دوسری جانب سال 2024 کے دوران خیبرپختونخوا کو حالیہ تاریخ کی بدترین بدامنی کا سامنا کرنا پڑا، اور یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے اس کے باوجود بڑھتا جارہا ہے کہ فورسز روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتی آرہی ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق سال 2024 کے دوران خیبرپختونخوا میں 273انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، جس کے نتیجے میں 747دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا۔
2024 میں پشاور سمیت صوبے کے 15اضلاع میں آپریشن کیے گئے، جن میں باجوڑ، خیبر، سوات، دیر، مہمند، کرم، شمالی وزیرستان، بنوں، جنوبی وزیرستان، ٹانک، لکی مروت، اور اورکزئی شامل ہیں۔ آپریشنز کی تعداد اور شدت کس نوعیت کی رہی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان اور خیبر کے اضلاع میں 29 ، 29کارروائیاں کی گئیں، جبکہ بنوں میں 34 اور وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 کارروائیاں کی گئیں۔ شمالی وزیرستان میں اس سال 164 جبکہ خیبر میں 132دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا۔
سیکیورٹی ذرائع کی رپورٹس کی طرح کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی دسمبر میں کی گئی اپنی کارروائیوں کی تفصیلات جاری کی ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ سال 2024 کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا میں تقریباً 1700 حملے کیے، جن میں تقریباً 1500افراد کو شہید کیا گیا، اس میں اکثریت کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے رہا۔
کرم کے حالات نے صوبائی حکومت کی رٹ کو پوری دنیا میں سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا، اور 3مہینوں تک یہاں جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں درجنوں بچوں اور خواتین سمیت تقریباً 200افراد دو طرفہ جھڑپوں کے نتیجے میں مارے گئے۔
مگر صوبائی حکومت لاتعلق یا بے بس رہی اور جب جنوری کے پہلے ہفتے میں اک مبہم معاہدے کے بعد ایک قافلے کو ٹل سے پاڑاچنار لے جانے کی کوشش کی گئی تو اسی صبح اپر کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود کو 4دیگر ساتھیوں کے ہمراہ حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے اور صورت حال پھر سے کشیدہ ہوگئی۔
8 جنوری کو جس دن سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میں قافلے کی روانگی کا راستہ ہموار کیا گیا اس سے اگلے دن یعنی 9 جنوری کو لکی مروت میں ایک کارروائی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 18 سرکاری ملازمین کو اغواء کیا، جبکہ اسی ہفتے بعض قبائلی علاقوں میں لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات کیے گئے کہ جو ملازمین سرکاری اداروں خصوصاً سیکیورٹی فورسز سے استعفیٰ نہیں دیتے ان کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے گا۔
اس صورتحال کے تناظر میں یہاں تک کہا جانے لگا کہ جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ عملاً ختم ہو کر رہ گئی ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو متعدد بار یہ کہتے سنا گیا کہ ان علاقوں میں شام کے بعد عام لوگوں کی طرح وہ بھی گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان کی سرحد پر واقع جغرافیائی اہمیت کے حامل خیبرپختونخوا کو حالت جنگ کا سامنا ہے تو غلط نہیں ہوگا، تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت بہت سے معاملات سے بلکل لاتعلق دکھائی دیتی ہے، اور اس کی توجہ وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ پر مرکوز رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا کو صوبائی حکومت کے نتیجے میں علاقوں میں کے دوران کیا گیا صوبے کے کیے گئے کی گئی
پڑھیں:
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
لاہور:ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔
بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔
https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔
باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔
خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔