بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کو اسلام قبول کرنے کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں؟ سب بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کو اسلام قبول کرنے کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں؟ انٹرویو میں سب بتا دیا۔
شرمیلا ٹیگور کا شمار اپنے وقت کی معروف بھارتی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔ اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز انہوں نے 1959 میں کیا، وہ کئی برس مختلف فلموں میں نظر آئیں، جن میں سے کئی فلمیں ہٹ ہوئیں۔
اداکارہ شرمیلا کی فلمی کیریئر کے دوران مشہور بھارتی کرکٹر منصور علی خان پٹودی سے ملاقات ہوگئی۔ جس کے بعد دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی اور انہوں نے شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا، یوں 1968 میں شرمیلا نے منصور علی خان سے شادی کر لی۔شادی کے بعد شرمیلا نے بھی اسلام قبول کرلیااور اپنا اسلامی نام عائشہ رکھا۔ حال ہی میں شرمیلا ٹیگور کا سوشل میڈیا میں ایک انٹرویو وائرل ہے۔
انٹرویو کے دوران اداکارہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی زندگی کے نئے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ آسان تھا نہ ہی بہت مشکل، تاہم اب مجھے لگتا ہے کہ میں ہندو مذہب اور اسلام کے بارے میں کافی کچھ جانتی ہوں۔انٹرویو میں شرمیلا ٹیگور نے بھوپال کی اپنی ساس نواب بیگم ساجدہ سلطان سے ملاقات کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ “جب میں پہلی بار اماں سے ملی، تو میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔
نواب بیگم نے مجھ سے پوچھا ’میرے بیٹے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘ میں نے کہا کہ ’میں انہیں پسند کرتی ہوں۔‘ انہوں نے پھر پوچھا، ’آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘ میں نے جواب دیا،’میں ابھی تک خود نہیں جانتی، میں ابھی ان سے ملی ہوں، تاہم میں انہیں بہت پسند کرتی ہوں۔ماضی کی معروف بھارتی اداکارہ نے بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرا اپنی ساس کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا، جو ان کے مرتے وقت تک قائم رہا۔
یاد رہے کہ اداکارہ شرمیلا ٹیگور کی نواب منصور علی پٹودی سے ان کے فلم انڈسٹری کے عروج کے دنوں میں ملاقات ہوئی، دونوں نے پہلی ہی نظر میں ایک دوسرے کو پسند کرلیا تھا۔منصور علی خان پٹودی اور شرمیلا ٹیگورکی شادی کے 43 برس بعد لیجنڈ کرکٹر کا 2011 میں انتقال ہو گیا تھا، جوڑے کے 3 بچوں میں اداکار سیف علی خان، صبا علی خان، اداکارہ سوہا علی خان شامل ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلام قبول منصور علی علی خان کے بعد
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت