ڈونلڈ ٹرمپ بڑے ملک کا چھوٹا انسان یا بڑا تاجر
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی دنیا بھر میں اک طوفان سا اٹھا دیا ہے اک طرف اپنے ہمسائے کینیڈا کو اپنی اکیاون ویں ریا ست بنانے کا بیان دے رہے ہیں دوسری طرف میکسیکو کو دھماکا رہے ہیں، اک جانب اپنے ناٹو اتحادی کو چھوڑ نے کے بیانات دے رہی ہیں دوسری جانب گرین لینڈ کو ہتھیانے کا اعلان کررہے ہیں۔ آگے بڑھ کر پاناما کو بھی دھمکانے کے ساتھ غزہ کے مجاہدین کو بھی دھمکانے سے بعض نہیں آرہے ہیں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مغرور بادشاہ نیک صفت افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک عالم نے قرائن سے یہ بات جان لی اور وقت کے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا ’’اے دنیا کے بادشاہ، لاؤ لشکر اور دنیاوی ساز و سامان میں ہے شک تو ہم سے بہت زیادہ ہے، لیکن سکون اطمینان میں ہم بہت بہتر ہیں۔ مگر موت سب کو برابر کر دے گی۔ ان شاء اللہ قیامت یا روز آخرت ہمارے جیسے لوگوں کا حال تجھ سے بہت بہتر ہوگا۔ اے پادشا نیک صفت لوگوں کا حال بظاہر خراب و خستہ لگتا ہے لیکن ان کا دل روشن اور گناہوں کی طرف آمادہ کرنے والا حس مردہ ہے۔ ہم جیسے بزرگوں کا طریقہ ذکر خدا کرنا، شکر ادا کرنا، ایثار و قناعت 1 خدا کی ذات میں کسی اور کو شریک نہ کرتا ہے، اس کے ساتھ توکل و حلم کا جذبہ ہے، اگر کسی میں یہ صفات نہ ہو تو وہ نیک صفت انسان نہیں ہو سکتا اور جو دین کے بتائے ہوئے طریقوں سے روگردانی کرے، عیش و عشرت کا خواہش مند ہو، آوارہ صفت ہو، جو سامنے آئے ہڑپ کر جائے اور جو منہ میں آئے کہہ گزرنے والا ہو۔ چاہے اس نے درویشوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہو۔ یہ حکمران دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی قوم کے ہوں، ان کی خصوصیات اگر ایک جیسی ہوں جن کا بیان اوپر کیا گیا ہے ان کا حشر بھی بیان کر دیا گیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کے مختلف طریقہ رائج ہیں۔ سب اپنے اپنے علاقوں کی نفسیات روایات اور اقدار کے ساتھ رجحانات کے مطابق حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ کہیں پر حکمران خود سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ چھوٹے ملکوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے، کہیں پر مصنوعی جمہوریت کے ذریعہ کہیں پر حقیقی طریقے سے حکمرانوں کو منتخب کر کے اقتدار میں لایا جاتا ہے۔
امریکا کے انتخابات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ پچھلے دنوں امریکا میں انتخابات میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہو کر دنیا بھر کے روایتی حلقوں کو حیران و پریشان کر گئے۔ امریکا کی حیثیت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت والے ملک کی ہے۔ اس کا حکمران دنیا بھر کا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کی صورت میں دنیا کو ایک ایسا حکمران میسر ہو گیا۔ جس کے بارے میں کوئی بھی مکمل اندازہ نہیں لگا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی صورت دنیا کو ایک ایسا حکمران مل گیا جس کی موجودہ دور میں شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ٹرمپ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں تھا، نہ ہی اس نے اپنی انتخابی مہم میں ایسے طریقے استعمال کیے جیسے کہ اس کے مخالف سیاستدانوں نے اختیار کیے جس کی وجہ سے وہ شکست سے دوچار ہوئے اور ٹرمپ کو فتح حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک بزنس مین کی سوچ رکھتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ امریکا امریکن کے لیے ہے۔ اور امریکا کو بنانے میں بھی باہر سے آنے والے افراد شامل ہیں جن کی اپنی روایات، اقدار، ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو رہے ہیں، ان کے اپنے طرز زندگی کے بھی اثرات امریکا جیسے بڑے ملک میں پڑ رہے ہیں ایک طرف امریکن عوام ان باہر سے آنے والوں کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ناگزیر سمجھتے ہیں دوسری طرف وہ ان کے طرز زندگی نے سے خوف زدہ ہو کر ٹرمپ کے منصوبوں میں آلہ کار بن گئے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم جس طریقہ سے چلائی اور اس کو کامیاب سے ہمکنار کیا۔ یہ اس کی ذہانت ہے جس کا مظاہرہ کر کے اس نے بزنس میں والی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بزنس مین یہ دیکھتا ہے کہ اس کی کسی پروڈکٹ کو عوام کے کسی طبقے میں کتنی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ یقینا اپنی اس پروڈکٹ کو سیل کرکے منافع تو خوب حاصل کرے گا مگر کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی اس پروڈکٹ کی وجہ سے ’’اس کی ساکھ خراب ہو‘‘ جس کی وجہ سے اس ’’کا پورا بزنس ہی تباہ ہو جائے۔
اب صورت یہ تھی کہ ٹرمپ دوبارہ کامیاب ہونے کے بعد پورے امریکا کے صدر ثابت ہونے کے ساتھ تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا باعث ہوگا جیسا کہ امریکا کے سب سے بڑے بزنس بل گیٹ نے اپنی تمام دولت کو انسانیت کے لیے وقف کر کے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے بزنس مین سے بڑھ کر انسانیت کا خادم بن کر پوری دنیا میں وہ عزت و نیک نامی حاصل کرلے گا جو کہ ایک بزنس مین یا سیاستدان بن کر حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر بن کر اپنی اس بات پر سختی سے عمل کرنا ہو گا کہ وہ پورے امریکا کے صدر ہیں۔ ان کو سپر پاور کے صدر کی حیثیت سے فیصلہ کرنے ہوں گے نہ کہ ایک محدود اور مخصوص طبقے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے یقینا ان کو اپنے فیصلے علاقائی فکر وسوچ سے بالاتر ہو کر نہ صرف سپر پاور امریکا بلکہ پورے مغرب کے ساتھ تمام دنیا کے امن استحکام مد نظر رکھنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے عہدے پر پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین کی طرح امریکا اور پوری دنیا کی فلاح و بہبود کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں گے یا ایسے محدود فکر کے انسان کی حیثیت بدستور قائم و دائم رہیں گے جو صرف علاقائی طبقاتی فکر و سوچ رکھنے والا انسان ہو یا وہ ایک مدبر بن کر عالم انسانیت لیے امن آشتی کا ماحول قائم کریں گے۔ اب ان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ روایتی بادشاہ ثابت ہوتے ہیں یا انسانیت کا امین۔ اپنے آپ کو ایک بہت بڑا مدبر اور رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں جیسے کے نیوزی لینڈ کی سابق خاتون وزیراعظم جسینڈا رائس، جس کے بعد دنیا بھر میں اس خاتون کو بہت بڑے اور اعلیٰ مقام پر اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر سپر پاور امریکا کا صدر اس مرتبہ تک نہیں پہنچ پا رہا ہے حالانکہ وہ اقتدار میں ان لوگوں کی مدد سے آیا تھا جو کہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بڑا اور بہتر سمجھتے ہیں۔
امریکی صدر کے بہت سے اقدامات ان قوتوں کو قوت فراہم کر رہے ہیں جو اس طرح کی محدود طرز فکر رکھتے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم کا موقف ان سے بالکل مختلف سمت میں رہا ہے اس کی سوچ بین الاقوامی یا انسانیت کے لیے رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز محدود طرزِ عمل کا حامل ہے جو کہ بڑے ملک کی سربراہ کے شایان شان نہیں ہے ان کا نعرہ ہے کہ امریکا امریکن کے لیے پہلے ہے جو کہ امریکا جیسے سپر پاور کے لیے ایک چھوٹی بات ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو اپنے قول وفعل سے ثابت کر دیا کہ وہ انسانیت کی امین ہے اس نے دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ جس کو اپنا کر ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے حکمران انسانیت کی فلاح کے لیے بڑے بڑے کام انجام دے کر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنوانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جسینڈا کی پیروی کرتے ہوئے فلاح انسانیت کے لیے اقدامات اٹھا کر انسانیت جو کو نقصانات پہنچانے والوں سے دنیا کو محفوظ کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کوریا کے صدر کو راہ ر است پر لانے کا رادہ کیا ہوا ہے یا داعش کے خاتمے کا یقین دلایا ہے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ امریکا کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے مگر اس ملک کی وزیر اعظم مدبرین کی صف میں مقام کی حامل ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اک بڑے ملک کے چھوٹے سربراہ بنتے ہیں یا ایک اعلیٰ مدبر؟؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیوزی لینڈ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے کہ امریکا دنیا بھر سپر پاور ہے کہ وہ کے ساتھ دنیا کے دنیا کو رہے ہیں کے صدر کے لیے ملک کی
پڑھیں:
جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
دنیا ایک نئے جوہری دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں امریکا اور مغرب کا جوہری اجارہ داری کا خواب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ جوہری ہتھیار دوسرے ممالک تک پھیلیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کتنی تیزی سے یہ عمل مکمل ہوگا۔
آنے والے برسوں میں دنیا میں جوہری طاقتوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 15 یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مغرب اس امکان کو عالمی تباہی کے مترادف سمجھتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی دنیا کی سیاسی ساخت کو بنیادی طور پر متاثر نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی قیامت کا باعث بنے گی۔
جوہری طاقت: جنگی تاریخ میں انقلابجوہری ہتھیاروں کی ایجاد نے عالمی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ ان کی موجودگی نے طاقتور ریاستوں کو بیرونی جارحیت سے تقریباً ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ چند ممالک – خاص طور پر روس اور امریکا – ایسی جوہری طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں کسی عالمی اتحاد کے ذریعے بھی شکست دینا ممکن نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے روس کے نئے غیر جوہری دفاعی ہتھیار نے پوری دنیا کو چونکا دیا
چین بھی اب اس جوہری اشرافیہ میں شامل ہونے کی طرف گامزن ہے، اگرچہ اس کا ذخیرہ ابھی تک امریکا اور روس کے مقابلے میں محدود ہے۔
سلامتی مہنگی، خواہشات محدودعالمی سطح پر جوہری سپرپاور بننا انتہائی مہنگا عمل ہے۔ چین جیسے وسائل سے مالا مال ملک نے بھی حالیہ برسوں میں اس منزل کی طرف پیش رفت کی ہے، لیکن بیشتر ممالک کے لیے یہ راستہ قابلِ برداشت نہیں۔
خوش قسمتی سے زیادہ تر ممالک کو اس حد تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بھارت، پاکستان، ایران، برازیل، جاپان، اسرائیل جیسے ممالک کی جوہری خواہشات علاقائی تحفظ تک محدود ہیں، نہ کہ عالمی تسلط تک۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے چھوٹے جوہری ہتھیار عالمی طاقت کے توازن کو متزلزل نہیں کرتے۔
جوہری پھیلاؤ: خطرہ نہیں، استحکام کا ذریعہ؟ماضی میں کئی معروف مغربی اور روسی ماہرین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ محدود سطح پر جوہری پھیلاؤ دراصل عالمی استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی بھی جارحیت کی قیمت بہت بڑھا دیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ریاستیں حملے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ اصول شمالی کوریا کے طرزعمل میں واضح دیکھا جا سکتا ہے، جو معمولی جوہری صلاحیت کے باوجود واشنگٹن کے سامنے قدرے جری ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، ایران نے معاہدوں پر بھروسہ کیا، اور جون 2025 میں امریکا اور اسرائیل کے حملے کا نشانہ بن گیا۔ اس واقعے نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ جوہری تحفظ کے بغیر ریاستیں غیرمحفوظ ہیں۔
عدم پھیلاؤ کا نظام ناکام؟عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کا نظام رفتہ رفتہ غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے ممالک نے اس نظام کی خلاف ورزی کی، مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوسری طرف ایران نے ضوابط پر عمل کیا اور اس کی قیمت چکائی۔
یہ منظرنامہ دیکھ کر جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک اب خود کو جوہری طاقتوں کی صف میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ چاہے امریکی حمایت سے خاموشی سے ہو یا خود مختارانہ طور پر۔
کیا 15 جوہری طاقتیں دنیا کا خاتمہ ہوں گی؟اگرچہ مغرب میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مزید جوہری ریاستوں کا مطلب تباہی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ضروری نہیں۔
نئے جوہری ممالک – خواہ ایران ہو یا جاپان – فوری طور پر روس یا امریکا جیسے بڑے ذخائر نہیں بنا سکتے۔ ان کی جوہری طاقت زیادہ سے زیادہ دفاعی سطح تک محدود ہوگی، نہ کہ مکمل عالمی خطرہ۔
یہ بھی پڑھیے ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
ہاں، علاقائی جنگوں کا خطرہ ضرور رہے گا۔ مثلاً بھارت اور پاکستان، یا ایران اور اسرائیل کے درمیان لیکن یہ تصادم عالمی تباہی کا سبب نہیں بنیں گے۔ اور ایسی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ روس اور امریکا جیسے بڑے جوہری ممالک صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کریں گے۔
اصل خطرہ کہاں ہے؟ماہرین کے مطابق اصل خطرہ ان نئے جوہری ممالک سے نہیں، بلکہ مغرب – خصوصاً واشنگٹن کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے ہے۔
امریکا کی مشرقی ایشیا میں مداخلت، چین کو روکنے کے جنون میں اپنے اتحادیوں کو خطرے میں ڈالنا، اور ہر قیمت پر اسٹریٹیجک غلبہ برقرار رکھنے کی خواہش – یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کو واقعی بحران میں دھکیل سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جوہری ہتھیار چین