موہن سنگھ سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ ہیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) بھارت کی دو فیصد سے بھی کم آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کا ملک کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ مینوفیکچرنگ شعبے میں بھی نمایاں کردار ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں سکھ سب سے زیادہ امیر ہیں۔ تقریباً 60 فیصد سکھ گھرانے خوشحال اور زندگی گزارنے کے جدید وسائل رکھتے ہیں۔
منموہن سنگھ کی طرح ان کے برادری کی ایک بڑی آبادی تقسیم ہند کے بعد انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوئی، مگر دو دہائیوں کے اندر ہی پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ یہ شاید اسی برادری کا طرہ امتیاز ہے، ورنہ اتنے مصائب جھیلنے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد شاید ہی کوئی اور کمیونٹی اتنی کم مدت میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو پائی ہو۔
(جاری ہے)
تقسیم ہند اور پھر فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ سکھ اور مسلمان متاثر ہوئے۔
ان کو اپنی پشتینی جائیدادیں اور گھروں کو چھوڑ کر نئے آشیانے بسانے پڑے۔سکھوں کو، پنجاب میں زرخیز زمینوں کو چھوڑ کر بھارت میں انجان شہروں میں مستقبل تلاش کرنا پڑا۔ حال ہی میں انتقال کر جانے والے بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، اسی جدوجہد یعنی نئے آشیانے کی تلاش اور پھر کامیابی کی انتہا تک پہنچنے اور سکھوں کی روایتی سخت جانی اور برداشت کا استعارہ ہیں۔
سکھ بھارت کی واحد اقلیت ہے، جو سب سے زیادہ باوقار عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ منموہن سنگھ، جو 2004 میں وزیر اعظم بنے، کے علاوہ، گیانی ذیل سنگھ بھارت کے صدر، جنرل جوگندر جسونت سنگھ آرمی چیف، فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نیز بھارتی فضائیہ کے واحد مارشل آف ایئر ارجن سنگھ بھی سکھ ہی تھے۔
انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق ڈائریکٹر نہچل سندھو اور ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سربراہ امرجیت سنگھ دولت جیسے سکھوں نے قومی سلامتی کے عہدوں پر فائز ہو کر اپنا لوہا منوایا ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں جب سے یونانی بادشاہ سکندر نے بھارت پر حملہ کیا، تب سے پنجاب مسلسل حملہ آور فوجوں کے نشانے پر رہا ہے۔ ان حملوں کا سامنا کرنے سے لے کر برطانوی فوج میں سب سے بڑی تعداد میں شامل ہونے کے سبب پنجاب ہمیشہ دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔
سکھوں نے برصغیر کی تقسیم، اپنی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور 1984 کے فرقہ وارانہ فسادات سہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو جب ان کے سکھ محافظوں نے قتل کیا، تو اس کا انتقام دہلی اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر معصوم سکھوں کا خون بہا کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ صدر گیانی ذیل سنگھ کے قافلے تک کو نہیں بخشا گیا۔صحافی کلدیپ نیئر اپنی کتاب 'ٹریجڈی آف پنجاب، آپریشن بلیو اسٹار ایںڈ آفٹر' میں لکھتے ہیں کہ ذیل سنگھ کے قافلے پر دہلی کے صفدر جنگ علاقے کے قریب اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جا رہے تھے، جہاں مسز گاندھی کی باقیات رکھی گئی تھی۔
بہت کم افراد کو معلوم ہو گا کہ من موہن سنگھ بھی اس دن بال بال بچ گئے۔ ایک ہجوم ان کے جان کے درپے ہو گیا تھا۔
مسز گاندھی کے قتل کے وقت وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر تھے۔ وہ ممبئی سے مسز گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ وہ اس کے بعد دہلی میں اپنے گھر اشوک وہار رات گزارنے چلے گئے اور اپنے داماد وجے تنکھا اور بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔
دیر رات ایک ہجوم باہر اکھٹا ہوا اور مکان کو جلانے اور سکھوں کر باہر نکال کر مارنے کے لیے نعرے بلند کرنے لگا۔ ان کے داماد نے باہر جا کر ہجوم کو بتایا یہ گھر واقعی ایک سکھ کا تھا، مگر کئی ماہ قبل انہوں نے اس کو خریدا ہے، اور وہ ایک ہندو ہیں۔ کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ہجوم وہاں سے جانے پر آمادہ ہوا یا شاید ان کو کوئی اور شکار مل گیا تھا۔
من موہن سنگھ کی سوانح حیات میں، جو ان کی بیٹی دمن سنگھ نے لکھی ہے، کے مطابق سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پاس کے مندر کا پجاری بھی اس بھیڑ میں شامل تھا اور ہجوم کو اکسا رہا تھا۔ ہجوم کے جانے کے بعد رات کے اندھیرے میں من موہن سنگھ کو ایئر پورٹ پہنچایا گیا، جہاں سے وہ صبح سویرے ممبئی روانہ ہو گئے۔
بقول ریٹائرڈ بیوروکریٹ رمیش اندر سنگھ، اس طرح کے واقعات سے نپٹنے کی جدوجہد نے سکھوں کو ایک ڈسپلن سکھایا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سربجیت دھالیوال کہتے ہیں، ''جب بھارت خوراک کے لیے پوری دنیا سے ایک طرح سے بھیک مانگ رہا تھا، تو پنجاب کے کسانوں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ چند برسوں میں ایک سبز انقلاب برپا ہو گیا اور بھارت اناج میں خود کفیل ہو گیا۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ سکھوں کی اس تیز رفتار ترقی کا تعلق ان کے عقیدے سے ہے، جو سکھ گرووں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
سکھ عقیدے کی بنیاد محنت، اشتراک، سماجی انصاف اور صنفی مساوات پر رکھی گئی ہے۔منموہن سنگھ اپنی والدہ کو بچپن میں کھو چکے تھے اور ان کی پرورش ان کے دادا دادی نے کی۔ تقسیم کے دوران ان کے دادا کا قتل ہو گیا، جن کے ساتھ ان کا بہت گہرا رشتہ تھا۔ ان کا خاندان ایک نئی شروعات کرنے کے لیے جیب میں صرف چند روپے لے کر بھارت چلا آیا تھا۔ ہوشیار پور میں سڑک کے لیمپ پوسٹ کے نیچے وہ اپنی ہوم ورک کرتے تھے، کیونکہ گھر میں بجلی یا دیا جلانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
ان کے ابتدائی سال اور ان کا سیاسی کیریئر اپنے چیلنجوں کے ساتھ آیا۔ لیکن آخر میں، وہ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے، جس پر بھارت کو ہمیشہ فخر رہے گا۔
یہ اس خطے کا جغرافیہ اور سکھ تعلیمات ہیں، جو کسی بھی مصیبت کو سکھوں پر حاوی نہیں ہونے دیتی۔ ماہر عمرانیات ہرویندر سنگھ بھٹی کہتے ہے، "پنجاب کا پورا علاقہ، افغانستان تک روایتی طور پر ایک قبائلی علاقہ تھا۔
سکھوں کے معاملے میں، مذہبی تعلیمات نے اس قبائلی برادری کو ایک روحانی برادری میں تبدیل کر دیا۔"سکھوں کی یہی خوبی ہے جو انہیں ہر طرح کے ظلم کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکندر سے لے کر اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی اور اب نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے لائے گئے کھیتی کے قوانین کے خلاف حالیہ احتجاج تک، سکھوں نے ان سب کے خلاف آواز بلند کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دوران گرفتار کیے گئے 1.4 لاکھ لوگوں میں سے 43000 سکھ تھے۔
سکھ مت اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ ذاتی اور سماجی زندگی کو کبھی ترک نہ کریں۔ سکھ ازم رہبانیت اور تارک دنیا ہونے کے سخت خلاف ہے۔ یہ ہر سکھ کو ہدایت ہے کہ ایک اچھی زندگی گزارے۔ خود کمائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور اپنی دولت میں سماج کو شریک کرے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا محض 0.4 فیصد ہونے کے باوجود سکھوں کی موجودگی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سب سے زیادہ سکھوں کی ہونے کے کے لیے ہو گیا کے بعد
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔
صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔
عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔
بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د
ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔
بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔