قمر عالم کے مظالم پر جنرل اختر کی معذرت
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
دو سال پہلے آئی ایس آئی کے مشہور زمانہ کردار میجر عامر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنی ذمے داریوں کے دوران اسلام آباد میں ایک ایسے نیٹ ورک کا سراغ لگایا تھا جو سی آئی اے کی سرپرستی میں کام کر رہا تھا اور اس کا مقصد خودمختار کشمیر کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔ اس نیٹ ورک میں بظاہر ناروے کے سفارت کار تھے مگر اس کے اصل ڈانڈے سی آئی اے سے ملتے تھے۔ میجر عامر نے جن دنوں کی بات کی تھی وہ وہی وقت تھا جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے تانے بانے بُنے جا چکے تھے اور اب ان پر عمل درآمد کا مرحلہ درپیش تھا۔ میجر عامر کے اس انکشاف سے اس تاثر کو تقویت ملی تھی کہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے ذہن ِ رسا کا نتیجہ ہی نہیں تھا بلکہ سی آئی اے بھی سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں بے نیل ومرام ہوجانے والے بھارت کی کلائی مروڑ کر اسے اپنی جانب کھینچنا چاہتی تھی۔ بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ امریکا نے اس ساری صورت حال کو بھارت سے معاملات طے کرنے کے لیے ایک ’’بارگینگ چِپ‘‘ کے طور پر استعما ل کیا۔ سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر سے اپنے منصوبے پر مدد مانگی۔ جس کے لیے جماعت اسلامی کے امیر مولانا سعد الدین سعودی عرب سے اسلام آباد آئے مگر انہیں جنرل ضیاء الحق سے پہلی ملاقات ہی میں اندازہ ہوا کہ اس منصوبے میں ’’اینڈگیم‘‘ کا مرحلہ کہیں نہیں۔ اس میں سارا بوجھ کشمیر کے عام آدمی کے کندھوں پر ہوگا اور پاکستان کے حکام فقط دعائوں سے ان کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے۔ جنرل ضیاء الحق کی ساری باتیں سننے کے بعد مولانا سعد الدین نے پوچھا جب ہم یہ سب کچھ کرلیں گے تو پھر آپ کیا کریں گے؟ جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا ہم حالات کے مطابق پالیسی بنائیں گے۔ بس اس ایک جملے سے مولانا سعدالدین پر چاول کی دیگ کی حقیقت آشکار ہوئی اور انہوں نے اس منصوبے میں بروئے کار آنے سے معذرت کر لی۔ جس پر جنرل ضیاء الحق نے طنز کے انداز میں ویٹر کو آرڈر دیتے ہوئے کہا کہ مولانا ٹھنڈے علاقے سے تشریف لائے ہیں ان کے لیے(جذبات گرم کرنے کے لیے) فرانسیسی قہوہ لائیں۔
ایک انٹرویو میں 1990 میں یہ کہانی مجھے کشمیر کی ایک ایسی شخصیت نے سنائی تھی جو اسے خود مولانا سعدالدین کی زبانی سری نگر میں سن چکے تھے۔ دوسرے آپشن کے طور پر جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کا آغاز جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بینر تلے ہوا جو خودمختار کشمیر کی کھلی علمبردار تھی۔ اس جماعت کی جو قیادت اسلام آباد کے حکام کے ساتھ معاملات طے کرنے اور مسلح جدوجہد کے خد وخال اُبھارنے والوں میں شامل تھی ان میں امان اللہ خان سمیت اکثر لوگ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ امریکا میں مقیم سینئر کشمیری لیڈر راجا محمد مظفر اب اس کہانی کے واحد چشم دید گواہ ہیں۔ میں نے اس راکھ سے چنگاریاں تلاش کرنے کے شوق میں راجا محمد مظفر سے پوچھا کہ کیا ان کی ابتدائی سرگرمیوں کو سی آئی اے کی حمایت بھی کسی سطح پر حاصل تھی تو انہوں نے اس بات سے لاعلمی ظاہر کی تھی ان کا کہنا تھا کہ ہمارا رابطہ پاکستانی حکام سے تھا آگے ان کا رابطہ کس کس سے تھا یہ ہمیں معلوم نہیں۔ اس دوران انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ جب پاکستانی حکام کو لبریشن فرنٹ سے مدد لینے کا خیال آیا تو راولپنڈی کے گولف کلب میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان اور لبریشن فرنٹ کے سینئر لیڈر ڈاکٹر فاروق حیدر مرحوم جن کا تعلق جموں سے تھا کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں جنرل اختر عبدالرحمان نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لبریشن فرنٹ کی قیادت بالخصوص مقبول بٹ کے ساتھ شاہی قلعہ لاہور میں ہونے والے تشدد پر اظہار افسوس کیا اور تاویل پیش کی اس وقت پاکستانی سیکورٹی حکام مشرقی پاکستان کے حالات کی ذہنی کیفیت میں تھے اور اس ماحول میں وہ مقبول بٹ اور ان کی تحریک کو صحیح تناظر میں سمجھ نہ سکے اور اب اس ماضی کو بھول کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس طرح دو دہائیاں گزرنے کے بعد ایک اعلیٰ شخصیت کسی شخصیت پر ڈھائے جانے والے مظالم پر افسوس کا اظہار کر رہی تھی اور یہ وہ لمحات تھے جب وہ شخصیت یعنی محمد مقبول بٹ دہلی کی تہاڑ جیل میں پاکستانی ایجنٹ ہونے اور قتل کے الزام میں سزائے موت پا چکے تھے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں یہ اظہارِ افسوس لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا ہی تھا۔ اس اظہار افسوس سے نہ مقبول بٹ تہاڑ جیل کے کسی خفیہ گوشے کی قبر سے باہر آسکتا تھا نہ پیرانہ سالی کا شکار اور حالات سے بددل ہونے والے کشمیر کی داخلی تحریک چلانے پر یقین رکھنے والے ان کے سیاسی ساتھیوں کے جذبات دوبارہ جوان ہوسکتے تھے۔
مقبول بٹ اور شاہی قلعے کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان اور یحییٰ خان کی پالیسی اور ان کے تیور دیکھ کر مقبول بٹ اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان تِلوں میں تیل نہیں۔ اب کشمیریوں کو آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک کو نئے انداز سے خود اپنی بنیادوں پر آگے بڑھانا چاہیے۔ اسی کھیل میں وہ کئی بار گرفتار ہوتے رہے اور گنگا جہاز کے اغوا کے بعد انہیں شاہی قلعہ لاہور میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس تشدد کے ذمے دار شاہی قلعے کے انچارج قمر عالم تھے۔ قمر عالم نے مقبول بٹ کو بھارت کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ وہ اس قید سے نکلنے کے بعد ایک بار کنٹرول لائن عبور کرکے اپنے آبائی علاقے چلے گئے جہاں انہوں نے زیرزمین رہ کر گوریلا جنگ کا ماحول بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اسی دوران دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ اس پس منظر کے حامل قمر عالم کو اسی کی دہائی میں آزاد کشمیر کا آئی جی پولیس بنا کر بھیجا گیا۔ یہ مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کے زخم تازہ کرنے والی بات تھی۔ اسی کی دہائی میں آزادکشمیر کے در ودیوار پر’’قمر عالم کو واپس کرو‘‘ کی چاکنگ پڑھنے کو ملتی تھی یوں برسوں بعد جنرل اختر عبدالرحمان شاہی قلعے کے جلاد صفت قمر عالم کے مظالم پر اظہار افسوس کر رہے تھے اور اس کے لیے مشرقی پاکستان کے حالات اور اس نفسیاتی کیفیت کا جواز پیش کر رہے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ کشمیر میں بیس سال بعد قمر عالم کے مظالم کی معافی جنرل اختر مانگیں، مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان اور ٹکا خان کے مظالم کی معافی تین عشرے بعد جنرل پرویز مشرف ڈھاکا جاکر مانگیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر بیالیس سال بعد عدلیہ معافی مانگے تو وقتی غصے اور ردعمل میں قومی مفاد، حب الوطنی اور غداروں کو کچلنے کے نام پر ایسے کام کیے ہی کیوں جائیں کہ جن پر کسی دوسرے کو وقت گزرنے کے بعد معذرت کرنا پڑے۔ ان دنوں جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے کچھ عجب نہیں چند برس بعد کوئی دانائے راز ان تمام واقعات اور حالات پر یہ کہہ کر افسوس کا اظہار کرے کہ یہ سب کچھ ردعمل کے جذبات اور طاقت کی بالادستی کی ذہنیت کے زیر اثر ہوا تھا۔ آئیے ماضی پر مٹی ڈال کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنرل ضیاء الحق مقبول بٹ اور پاکستان کے سی ا ئی اے کشمیر کی قمر عالم انہوں نے کے مظالم کے لیے اور ان کے بعد اور اس
پڑھیں:
کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) کولمبیا یونیورسٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے ایک معاہدے کے تحت 200 ملین ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ تصفیہ اس الزام کے بعد کیا گیا کہ یونیورسٹی نے اپنے یہودی طلبہ کو درپیش خطرات کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے۔
بین الاقوامی زرائع ابلاغ کے مطابق یہ رقم تین سال کی مدت میں امریکی وفاقی حکومت کو ادا کی جائے گی۔ اس معاہدے کے بدلے حکومت نے مارچ میں منجمد کیے گئے 400 ملین ڈالر کے وفاقی گرانٹس میں سے کچھ کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
احتجاج اور الزامات کا پس منظر
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کولمبیا یونیورسٹی کو گزشتہ سال اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے دوران نیویارک کیمپس میں ہونے والے احتجاجات پر تنقید کا سامنا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے الزام عائد کیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں بڑھتے ہوئے سام دشمنی کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت کی شرائط اور یونیورسٹی کی تبدیلیاں
اس معاہدے کے تحت کولمبیا یونیورسٹی نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:
مشرقِ وسطیٰ کے مطالعاتی شعبے کی تنظیم نو
خصوصی اہلکاروں کی تعیناتی جو مظاہرین کو ہٹا سکتے ہیں یا گرفتار کر سکتے ہیں
احتجاج میں شریک طلبہ کے خلاف کارروائی
مظاہروں میں شناختی کارڈ دکھانے کی شرط
مظاہروں کے دوران چہرے ڈھانپنے یا ماسک پہننے پر پابندی
طلبہ گروپوں پر سخت نگرانی
کیمپس سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ
ڈی آئی ای پالیسیوں کا خاتمہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ ڈی آئی ای (ڈائیورسٹی، اِکویٹی اینڈ اِنکلوژن) پالیسیوں کا خاتمہ کرے گی اور طلبہ کو صرف میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کے شہری حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
آزاد نگران کی تقرری
معاہدے کے مطابق ایک آزاد نگران کو مقرر کیا جائے گا جو یونیورسٹی میں کی جانے والی اصلاحات کی نگرانی کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت منسوخ یا معطل کیے گئے بیشتر گرانٹس بھی بحال کیے جائیں گے۔
یونیورسٹی کا مؤقف
کولمبیا یونیورسٹی کی قائم مقام صدر کلیئر شپ مین نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ ادارے کی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ شراکت داری کو بحال کرنے میں مدد دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کسی غلطی کا اعتراف نہیں بلکہ ایک باہمی اتفاق رائے پر مبنی فیصلہ ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کا مختلف موقف
دوسری جانب، ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف قانونی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ حکومت نے ہارورڈ کے خلاف بھی اربوں ڈالر کے فنڈز معطل کر دیے ہیں اور غیر ملکی طلبہ کے داخلے پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت پیر سے شروع ہو چکی ہے۔