اوشا وینس پہلی بھارتی نژاد، امریکی خاتونِ دوئم بن رہی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
امریکہ کے منتخب نائب صدر جے ڈی وینس کی اہلیہ اوشا وینس امریکہ کی اگلی خاتونِ دوئم ہوں گی ۔ 20 جنوری کو جے ڈی وینس کی حلف برداری کے بعد ییل یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ اوشا اب تک کے کسی بھی امریکی نائب صدر کی پہلی جنوبی ایشیا ئی نژاد امریکی اہلیہ بن جائیں گی ۔
اوشا وینس ، ایک وکیل اور بھارتی تارکین وطن کی بیٹی، نائب صدر کی اہلیہ کے طور پر ایک تاریخی کردارسنبھالنے والی ہیں ۔ آئیے اب جب وہ واشنگٹن منتقل ہونے کے لیے تیار ہیں ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کا اپنے شوہر کے سیاسی کیرئیر اور دلچسپیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے ۔
ری پبلکن منتخب نائب صدر جے ڈی وینس اور ان کی اہلیہ اوشا وینس، ملواکی میں15 جولائی 2025 کو ری پبلکن نیشنل کنونشن کے موقع پر ، فوٹو اے پی
اوشا وینس 1986 میں کیلی فورنیا میں بھارت سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں ۔ وہ ییل یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ایک وکیل ہیں جو سپریم کورٹ کے دو قدامت پسند ججز کی کلرک رہ چکی ہیں ۔
ان دونوں کی ملاقات لاء اسکول میں ہوئی تھی۔ 2014 میں ان دونوں کی شادی ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں ۔ جب سے ان کے شوہر سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں انہوں نے خود کو اس شعبے سے نسبتاً دور رکھا ہے ۔
وائٹ ہاؤس کے اسٹاف کی ایک سابق رکن ،اور امیریکن یونیورسٹی کی ایک ایکزیکٹیو انیتا میک برائڈ کہتی ہیں کہ خاتون دوئم اوشا وینس ایک رول ماڈل ہیں ۔
اوشا وینس یکم نومبر 2025 کو ایک انتخابی ریلی کے دوران، فوٹو اے پی
انیتا نے زوم پر ایک انٹر ویو میں کہا ،’’ ہمارے ملک کی سیاست اور سول سوسائٹی ، اور معاشرے اور قائدانہ کردار کے تمام پہلووں اور مختلف درجوں تک متنوع لوگوں کا پہنچنا ہمارے ملک کے لیے ایک اچھی بات ہے ۔
تاہم اوشا وینس کے عوامی طور پر نمایاں ہونے نے امیگریشن کے بارے میں بھر پور بحث مباحثوں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
منتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں پیدائش کے ساتھ شہریت دینے کے حق کو فوری طور پر بند کرنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی اداروں کو ہدایت دیں گے کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی بچے کو امریکی شہری قرار دیتے ہوئے یہ تقاضا کریں کہ اس کے والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری ہو یا قانونی طور پر امریکہ کا مستقل رہائشی ہو۔
انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ کسی بھی غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کو امریکی شہریت خود بخود نہیں مل جائے گی۔
ٹرمپ کے کیمپ میں اعلیٰ ہنرمند کارکنوں کے لیے ایچ۔ون۔ بی H1B نامی عارضی ویزوں پر،تند و تیز مباحثوں کے دوران اوشا وینس نے اپنا کردار ادا کیا ۔ یہ ویزے حاصل کرنے والے اکثرکارکن بھارتی شہری ہیں۔
ایچ ون بی ، ویزا پروگرام امریکی آجروں کو مخصوص شعبوں میں اعلیٰ ہنر مندغیر ملکیوں کو عارضی طور پر ملازمت دینے کی اجازت دیتا ہے ۔
اگرچہ پیدائش کے ساتھ شہریت کے حق سے متعلق یہ تجویز متوقع طور پر قانونی چیلنجوں کے سامنے کمزور پڑ جائے گی تاہم ٹرمپ کے ناقد کہتے ہیں کہ والدین سے یہ کہنا کہ وہ اپنی قانونی حیثیت ثابت کریں اور صرف مستقل رہائشیو ں کو یہ حق دینا مشکلات کا سبب بنے گا۔
اوشا وینس کو بھی امریکی سوسائٹی میں سفید فام نہیں سمجھا گیا ہے ، جن کے بارے میں ان کے شوہر جے ڈی وینس نے تسلیم کیا کہ یہ بات کچھ امریکیوں کےلیے ایک مسئلہ ہے ۔
منتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے قدامت پسند یو ٹیوبر میگن کیلی کے ساتھ ایک انٹر ویو میں اپنی اہلیہ اوشا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، کہ، ’’ ظاہر ہے وہ ایک سفید فا م خاتون نہیں ہیں اور سفید فام بالادستی کے کچھ حامیوں نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔لیکن میں اوشا سے محبت کرتا ہوں، وہ اتنی اچھی ماں ہیں ، وہ اتنی شاندار وکیل ہیں اور مجھے ان پر بہت فخر ہے۔‘‘
بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں واقع ان کے آبائی گاؤں ودلورو کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ ان میں سے ان کا کوئی اپنا اتنی بلندیوں تک پہنچا۔ ان کے شوہر ایک کیتھولک عقیدے کے حامل ہیں جب کہ وہ ایک پریکٹیسنگ ہندوہیں ۔
ودلوروکے ایک رہائشی سرینیواس نے کہا کہ ،’’ میں واقعی خوش ہوں اور میرے گاؤں کے لوگ بھی خوش ہیں ۔ اگر مستقبل میں اوشا امریکہ کی صدر بن گئیں تو پھر میں اس سے بھی زیادہ خوش ہوں گا۔‘
میک برائڈ نے وینس پر زور دیا کہ وہ اپنے تین امریکی بچوں پر توجہ مرکوز رکھیں جو اب عالمی توجہ کا مرکز رہیں گے ۔
زوم پر ایک انٹرویو کے دوران اوشا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ان کے تین بچے ہیں ، ایک دو سال، دوسراپانچ اور تیسراسات سال کا اور میرا خیال ہے کہ وینس کو یہ یقینی بناناہوگا کہ وہ لوگوں کی نظر میں اس نئی زندگی میں ہم آہنگ دکھائی دیں ۔ ان کی ہر ممکن حفاظت کرنی ہوگی خاص طور پر اسکول کی عمر کے بچوں کی ۔ ‘‘
اوشا وینس بیس جنوری کو امریکی خاتونِ دوئم کے طور پر اپنا کردار سنبھالیں گی۔
انیتا پاول، وی او اے
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کے بارے میں جے ڈی وینس اوشا وینس کی اہلیہ ہیں اور ہیں کہ پر ایک
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن