’’کولڈ پلے‘‘ کا پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
کراچی:
چند روز قبل کی بات ہے دبئی سے کراچی واپس آتے ہوئے فلائٹ سے قبل میں ایئرپورٹ لاؤنج میں بیٹھا تھا، وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا بڑا گروپ بھی نظر آیا، سب پاکستانی تھے لیکن انگریزی میں بات چیت میں مگن رہے، میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک برگر کلاس نوجوان سے پوچھا کہ آپ لوگ کسی کالج ایکٹیوٹی کے لیے یو اے ای گئے تھے تو اس نے کہا ’’ نو ہم تو وہاں کولڈ پلے کے کنسرٹ کیلیے گئے تھے،وی آل لو کرس مارٹن‘‘۔
آپس کی بات ہے میں دیسی بندہ ہوں مجھے ارجیت سنگھ، عاطف اسلم، راحت فتح علی خان اور کشور کمار کا تو پتا ہے لیکن کولڈ پلے سے صرف اس حد تک واقف ہوں کہ وہ ایک میوزیکل گروپ ہے، بھارت میں کئی کامیاب شوز کیے اور پھر ابوظبی میں کنسرٹس کا سلسلہ شروع ہوا، پاکستانی ایلیٹ نے اپنے ملک میں شو نہ ہونے کی کسر یو اے ای جا کر پوری کر لی،اس کی ٹکٹ ہی پاکستانی روپے میں لاکھوں میں بنتی ہو گی، ایئرٹکٹ اور رہائش وغیرہ الگ ہے.
یہ ’’کولڈ پلے‘‘ کا پاکستان ہے جس کو پیسے کی کوئی کمی نہیں،آپ کو بڑے ریسٹورینٹس اور شاپنگ مالز میں ایسے لوگوں کی کمی نظر نہیں آتی.
دوسرا پاکستان وہ ہے جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کیلیے صبح سے شام سخت محنت کرتے ہیں،اب ہم اس بات کو کرکٹ کی طرف لے آتے ہیں، جس طرح ابھی کوئی میوزک اسٹار کنسرٹ کیلیے یہاں نہیں آتا ویسے ہی برسوں غیرملکی کرکٹ ٹیمیں بھی نہیں آتی تھیں، یو اے ای میں ہمارے میچز ہوتے،کوئی بڑا موقع ہوتا تو الیٹ کلاس وہاں چلی جاتی البتہ ایک عام پاکستان برسوں اپنے سامنے لائیو میچ دیکھنے سے محروم ہی رہا.
ایسے میں اب چیمپئنز ٹرافی یہاں ہو رہی ہے تو آپ اس کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، چند سو یاایک ہزار روپے کا ٹکٹ لے کر کوئی بھی اپنے اور غیرملکی اسٹارز کو ایکشن میں دیکھ سکے گا لیکن اگر ایسے ایونٹس نہ ہوں تو وہ دبئی جانے کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا.
گوکہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس بار بھی چند میچز یو اے ای میں ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں بھی کسی عالمی ایونٹ کے نہ ہونے کا جمود ٹوٹ چکا، ایک سال قبل ایک اعلیٰ بورڈ آفیشل نے مجھے قذافی اسٹیڈیم کے اپنے باکس میں میچ دیکھنے کیلیے مدعو کیا، یقین مانیے چند منٹ بعد ہی میں وہاں سے واپس چلا گیا کیونکہ میدان میں کیا ہو رہا تھا بغیر ٹی وی کے جاننا آسان نہیں تھا، کسی بھی انکلوژر میں چلے جائیں ویو اچھا نہ تھا.
محسن نقوی نے جب اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کا بیڑا اٹھایا تو وقت کی کمی کے سبب لوگوں نے تنقید بھی کی لیکن اب کام تقریبا تکمیل تک پہنچ چکا، انھوں نے شائقین کیلیے ویو بہتر بنانے کو ہی ترجیح دی جو سب سے اہم بات ہے،اتنے بڑے پروجیکٹس میں تھوڑی تاخیر ہو ہی جاتی ہے.
امریکا میں نساؤ کاؤنٹی اسٹیڈیم نیویارک پہلے میچ سے چند روز قبل ہی آئی سی سی کو ملا تھا، ابھی جتنی تنقید ہو رہی ہے جب ہم کراچی،لاہور اور راولپنڈی کے وینیوز کو نئی حالت میں دیکھیں گے تو اتنی ہی تعریف بھی کریں گے.
پاکستانی فلم انڈسٹری دم توڑ چکی، دیگر کھیلوں میں عوامی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں تفریح کا واحد ذریعہ فلاں ریسٹورینٹ کی کڑھائی، فلاں کی بریانی وغیرہ ہی ہے.
زیادہ تر لوگ آؤٹنگ کے نام پر ہوٹلنگ ہی کرتے ہیں، اسی لیے ہم نے اپنی صحت کا بھی بْرا حال کر لیا ہے، ایسے میں عوام کیلیے کرکٹ میچز ہی معیاری تفریح کا ذریعہ بن سکتے ہیں، ٹرائنگولر سیریز، پھر چیمپئنز ٹرافی اور اس کے بعد پی ایس ایل کا انعقاد ہونا ہے، وینیوز تو بنا لیے اب شائقین کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کریں.
ملتان میں مفت انٹری کے باوجود ٹیسٹ دیکھنے زیادہ لوگ اسٹیڈیم نہیں آئے، چیمپئنز ٹرافی جیسے ایونٹ میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی اسٹیڈیم خالی نہ رہے، ٹکٹوں کے نرخ طے کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ لوگ کیا اتنی رقم افورڈ کر سکیں گے، واش رومز کی حالت بہتر ہونی چاہیے، کھانے پینے کی اشیا معیاری ہونے کے ساتھ ریٹ پر بھی نظر رکھنا ہوگی، پارکنگ کے مقامات اسٹیڈیم سے زیادہ دور نہ رکھیں، شٹل سروس بھی چلائیں تاکہ ٹکٹ ہولڈر اس کے ذریعے اسٹیڈیم پہنچ سکیں.
آج کل کے دور میں سیکیورٹی بہت ضروری ہے لیکن اس سے عوام کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، چار جگہ تلاشی کے بجائے ایک ہی مقام پر سخت ترین چیکنگ سے گذار کر اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دے دینی چاہیے.
میچز کے دوران میلے جیسا سماں بنائیں،آغاز سے قبل اور وقفے پر کسی گلوکار کی پرفارمنس رکھ دیں، ٹکٹ کے نمبر پر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات تقسیم کریں، پی سی بی کیلیے چند بائیکس، ٹی وی وغیرہ کی اسپانسر شپ حاصل کرنا کون سا مشکل کام ہے،میچ کے بعد چند خوش نصیب شائقین کی کرکٹرز سے ملاقات اور سیلفیز کا بھی پلان کریں، پی ایس ایل میں تو اسٹیڈیمز بھرنے کا کام فرنچائزز پر چھوڑ دینا چاہیے.
عاطف رانا لاہور قلندرز کے میچز میں قذافی اسٹیڈیم کو کئی بار بھر چکے، اب پھر یہ ٹاسک ان سمیت دیگر اونرز کو سونپنا چاہیے،ٹکٹ کے ساتھ شرٹ یا کیپ کا تحفہ دیں، ایک اسٹینڈ قلندرز کی شرٹ پہنے شائقین کا ہو دوسرے میں کنگز کے مداح بیٹھے ہوں، کیا زبردست ماحول بنے گا.
محسن نقوی نے اسٹیڈیمز کی حالت بدل کر اپنی اہلیت ثابت کر دی، وہ دھن کے پکے ہیں جو کہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں، اب انھیں شائقین کو سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، چیمپئنز ٹرافی میں تو کم میچز ہیں،آئندہ جو بڑے ایونٹس ملیں ان کے میچز تین ریگولر وینیوز کے ساتھ دیگر شہروں میں بھی رکھیں،جو آمدنی ہو اس میں سے کچھ حصہ مزید اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کیلیے مختص کریں.
ایک ، ایک کر کے وینیوز کو بہتر بنائیں، پھر ایک وقت آئے گا جب ہمیں ورلڈکپ کی بھی میزبانی ملے گی اور کئی وینیوز میچز کا انعقاد کرنے کیلیے تیار بھی ہوں گے، ایسا وقت زیادہ دور بھی نہیں لگتا، آپ کا کیا خیال ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی یو اے ای نہیں ا
پڑھیں:
پنکج ترپاٹھی کے مداحوں کیلیے بڑی خوشخبری! انتظار ختم
’اوہ مائی گاڈ اور اس کے سیکوئل کو بنانے والے ہدایتکار نے نئی فلم بنا رہے ہیں جس میں پنکج ترپاتھی کے لیے مرکزی کردار رکھا گیا ہے۔
او ایم جی کے سیکوئل میں پنکج ترپاتھی نے اپنی جاندار اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور اب ایک بار پھر ’او ایم جی 2‘ کے ہدایتکار امیت رائے کے ساتھ ایک اور اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں۔
فلم کے نام کا تاحال طے نہیں کیا گیا لیکن اس فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ جو ایک مضبوط سماجی اور جذباتی پہلو رکھنے والی فلم ہوگی جس میں انسانی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔
فلم میں پنکج ترپاٹھی کے ساتھ پون ملہوترا، گیتا اگروال، راجیش کمار اور بھوجپوری فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے متعدد فنکار بھی اہم کردار ادا کریں گے۔
پنکج ترپاٹھی نے فلم سے متعلق بتایا کہ او ایم جی 2 میرے لیے ایک خاص فلم تھی کیونکہ یہ میری پہلی 180 کروڑ سے زائد کمائی والی سولو فلم تھی، اور سب سے بڑھ کر اس فلم نے انسانی اور جذباتی سطح پر لوگوں کے دلوں کو چھوا۔
اداکار نے بتایا کہ او ایم جی 2 کے ہدایتکار امیت رائے کے جو بانڈنگ بنی تھی وہ اب دوبارہ مضبوط ہونے جا رہی ہے۔
پنکج ترپاتھی نے ڈائریکٹر امیت رائے کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی کہانیوں میں سچائی، گہرائی اور ایک مقصد ہوتا ہے جو میرے دل کے قریب ہے۔
اداکار نے کہا کہ یہ نئی فلم ریاست بہار کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے، جو میرا گھر ہے، میری شناخت ہے۔
ہدایتکار امیت رائے نے بھی اس پراجیکٹ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنکج ترپاٹھی کے ساتھ دوبارہ کام کرنا ایسا ہے جیسے ایک ایسی تخلیقی دنیا میں واپس آنا جہاں سچائی اور اداکاری ہم آہنگی سے ملتی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ فلم انسانی رشتوں، مزاحمت اور اس سماجی تانے بانے کی خلوص بھری عکاسی ہے جو ہمیں جوڑتا ہے۔