ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل بٹ کوائن کی اونچی اڑان، نیا ریکارڈ قائم
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن تاریخ کی نئی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، پیر کو ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ 9 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی، جو بعدازاں 107765 ڈالر پر آکر رکی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے کرپٹوکرنسی لانچ کردی، نومنتخب صدر پر عہدہ کیش کرنیکا الزام
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات جیتنے کے بعد سے بٹ کوائن کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 5 نومبر کو صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے فوری بعد ایک بٹ کوائن کی قیمت 80 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی جو 12 نومبر تک 90 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ دسمبر میں ایک بٹ کوائن کی قیمت قیمت ایک لاکھ سے زائد ہوگئی تھی۔
حال ہی میں دونلڈ ٹرمپ نے اپنی کرپٹو کرنسی ’میم کوائن‘ بھی لانچ کی ہے، جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن تیزی سے کئی بلین ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔ اس منصوبے کو ٹرمپ آرگنائزیشن سے ملحقہ سی آئی سی ڈیجیٹل ایل ایل سی کے زیراہتمام لانچ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کمپنی قبل ازیں ٹرمپ کے برانڈ والے جوتے اور پرفیوم لانچ کرچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2025 میں کرپٹو کرنسی کی قدر و قیمت کہاں تک پہنچے گی؟
CoinMarketCap.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا ایک لاکھ 9 ہزار ڈالر بٹ کوائن تجاوز حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ قدر قیمت کرپٹو کرنسی نیا ریکارڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایک لاکھ 9 ہزار ڈالر بٹ کوائن تجاوز حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو کرنسی نیا ریکارڈ بٹ کوائن کی ڈونلڈ ٹرمپ ہزار ڈالر
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔