پروفیسر جے پی چودھری ماہر سیاسیات ہونے کے ساتھ ساتھ معاشیات اور امن و امان کی کی صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر بھی خاصی دسترس کے حامل انسان ہیں وہ ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں۔ اِس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سامراجیت سے آگے بڑھ کرعالمی ہائپر سامراجیت (GLOBAL HYPER IMPERIALISM)،عالمی بائولی سامراجیت (GLOBAL RABID IMPERIALISM )اورعالمی پاگل سامراجیت (IMPERIALISM (GLOBAL MADکی منزل میں داخل ہوکر اپنی معاشی، اقتصادی، مالی اورمالیاتی سیرا بیت کے آخری نقطہ امتلا( THE LAST POINT OF SATURATION)کو چھو رہا ہے۔اب عالمی ہائپرسامراجیت ( GLOBAL HYPER IMPERIALISM) ،عالمی بائولی سامراجیت (GLOBAL RABID IMPERIALISM )اورعالمی پاگل سامراجیت (( GLOBAL MAD IMPERIALISM اپنے آخری نکتہ عروج پر پہنچ کر اپنے شدید اندرونی معاشی، اقتصادی، مالی و مالیاتی تضادات کے باعث شکست و ریخت سے دوچار ہونے والی ہے۔ اب سائنسی طور پر آگے عالمی انقلاب کا مرحلہ ہے۔ بڑی اور بڑی ہی حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس وقت عالمی انقلاب کیلئے سارے معروضی اور موضوعی شرائط اور حالات مکمل ہوچکے ہیں۔ سو اب دنیا کی کوئی طاقت اِس کرہ ارض پر عالمی انقلاب اور خدا کی لاطبقاتی آسمانی بادشاہت کے قیام کو کسی بھی طرح سے نہیں روک سکتی۔
من حیث القوم ہمارے اندر افسر شاہی، پروٹوکول، طبقاتی تقسیم ،ہیپوکریسی اور بیوروکریسی رویے کا ایسا جراثیم جنم لے چکا ہے، جس کا تدارک اس باسی جمہوریت کے دور میں ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا،اور نہ اس جراثیم کے مرنے کی کوئی قوی امید ہے۔ہر خاص و عام کی یہ خواہش ہے کہ انکے پاس بے بہا اختیارات ہوں اور وہ اس کے بے جااستعمال سے اپنے آپ کو منوائے اور اپنے ہونے کا ثبوت دے۔پاکستان کا ہر بیوروکریٹ،ہر سیاستدان،ہر جرنیل اور ہر جج یہ بات بھول چکا ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں؟اور جس مقصد کیلئے اسے جس مسند پر بٹھایا گیا ہے۔اس کا مقصد کیا ہے؟اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟عوام کے مسائل کیا ہیں اور یہ ملک کس لئے بنایا گیا ہے؟بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان لوگوں کواتنا معلوم نہیں کہ ان کا اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے کا اور ان عہدوں پر بٹھانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ لوگ اس ذوق سے بھی محروم ہو چکے ہیں کہ انہیں روشنی اور تیرگی میں فرق کیا ہے؟پچھتر سال کے طویل عرصہ کی کوئی ایک دہائی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔کہیں آپ کو انسانیت سے محبت،ملک سے الفت، فرائض سے آگاہی ،خود سے آگہی،عوام سے رغبت،غلامی سے آزادی کا اور ترقی کا کوئی جذبہ نظر نہیں آئیگا۔ ملک کی دیواروں تک کو چاٹنے کے ہزاروں کیس سامنے آئیں گے۔مگر ایک بات یاد رکھیے گا جب بلب فیوز ہو جائے تو اسے روشنی کی قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ اپنی وقعت کا اندازہ بھی اسی وقت ہوتا ہے مگر اس پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہر چیز آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔
ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش کیلئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کیلئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ قریباً روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔ اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔
ایک دن جب ریٹائرڈ افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی۔ اس نے وضاحت کی:ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں گذشتہ 5 سال سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔ یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں فلاں صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے، پھر وہ سامنے والے صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائیں ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں۔ چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ، ہیلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔ اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون زندگی گزار سکیں گے۔ ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہوجائے گی۔
لہٰذا فیوز بلب ہونے سے پہلے جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔پھیلا دو۔تاکہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جا ئو۔تو یہی روشنی کام آئے۔ ورنہ جانا تو ہے ۔اس سے پہلے کہ آپ جائیں یا آپ فیوز ہو جائیں۔اپنے حقوق کو جانئے۔اپنے فرائض کو پہچانئے ۔اپنے ملک کا حق ادا کیجیے۔اپنے بزرگوں اور پرکھوں کی قربانیوں کی تجدید کیجیے۔اپنے دین کو بچائیے۔اپنی عوام کی فلاح و بہبود کا سوچئے۔حالات کی سنگینی کو جانئے۔اپنے نفس کو پہچانئے اور اپنی خودی کی لاج رکھیے۔یہی ہمارے عہدوں کا نصب العین ہے اور یہی ہماری ذمہ داریوں کا حق بھی ہے۔یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔
اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،
نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو، سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔
سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
ان کا مزید کہناتھاکہ مریم نواز نے جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں، ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟
اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل
لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔
مزید :