سینٹ: علیم خان کے بیان پر پی پی، بی اے پی کا احتجاج: سندھ کا پانی روکنے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا کو وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور نے بتایا ہے کہ دفتر خارجہ میں ڈیپوٹیشن پر تعینات افسروں کے حوالے سے قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ملک میں کھیلوں کی ترویج پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ دفتر خارجہ میں ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسروں کو واپس نہیں بھجوا رہے ہیں، اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ جس پر وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ سول سروس ایکٹ میں ڈیپوٹیشن کی اجازت ہے اور اس میں وزیر اعظم کے اختیارات بھی ہوتے ہیں اور اجازت بھی دی جاتی ہیں، تاہم یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس شخص کی سروسز کتنی ضروری ہیں، تاہم اس کو روٹین نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ان وجوہا ت کو دیکھنا ضروری ہے تاہم اس حوالے سے وزارت خارجہ کے افسران وضاحت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سوالات کو ایوان بالا میں زیر بحث لانا چاہیے تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی ادارے کو کسی دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور یہی ہمارے آئین کی منشا ہے۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ جو معاہدہ جرمنی کے ساتھ کیا گیا ہے وہ روس کے ساتھ بھی کیا جائے جس پر وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ بیرون ممالک کے ساتھ تمام معاہدے باہمی رضامندی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنی جانب سے رضامندی ظاہر کردی ہے اور اب دوسری جانب سے جواب کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے قانون میں بھی تبدیلی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ دوہری شہریت کا میکنزم اس وقت22ممالک کے ساتھ چل رہا ہے۔ سینیٹر محمد اسلم ابڑو نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ افسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت ایسے افراد کو چیئرمین مقرر کرتی ہے جو فٹ بال کو جانتے بھی نہیں ہیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ حکومت اپنے کھیلوں میں لگی ہوئی ہے ان کو فٹ بال کا کیا پتہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اولمپک ایسوسی ایشن فعال نہیں ہے جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ حکومت اور اپوزیشن کے کھیل کو اگر یہیں تک محدود رکھیں تو بہتر ہوگا۔ سینیٹر سرمد علی کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور نے کہاکہ ہاکی کے معاملات پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی۔ انہوںنے کہا کہ ہاکی کا کھیل وزیر اعظم کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ایوان بالا میں وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم کے ریمارکس پر پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا۔ وزیر وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اور وفاقی وزیر مواصلات نے ارکان سے معذرت طلب کر لی ۔منگل کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر کی جانب سے ایم 6موٹر وے کی تاخیر کے حوالے سے ضمنی سوال کے جواب میں تمام سیاسی جماعتوں کو تاخیر کا ذمہ دار قرار دینے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔ اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کی خاتون سینیٹر نے کہاکہ بلوچستان کی شاہراہوں کی تعمیر میں بہت زیادہ سستی دکھائی جارہی ہے، نئی سڑک کی تجویز ہے اس کا حال بھی ایم 6موٹر وے کی طرح نہ ہوجائے جس پر وفاقی وزیر مواصلات علیم خان نے کہاکہ بتایا جائے کہ کون کون سی حکومتیں برسر اقتدار رہی اور کیا اس میں پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی، وہ اپنے 5سال، پی ٹی آئی 4سال اور مسلم لیگ ن 5سالوںکا حساب دے، میں تو اپنے 6ماہ کا حساب دے سکتا ہوں۔ اگر پیپلز پارٹی کو ملک کی ترقی کا خیال ہوتا تو اس سڑک کو تعمیر کر لیتے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی‘ ہم اصولوی طور پر اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں پارٹی کے مسئلہ پر سب کی بات سننی چاہئے۔ سینیٹر رانا محمود الحسن کے ضمنی سوال کاجواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات علیم خان نے کہاکہ اس وقت این ایچ اے کے پاس 150کے قریب منصوبے ہیں اور جس رکن کو بھی مسئلہ ہوں تو وہ رابطہ کرے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ ایم ون کی حالت خراب ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی راناتنویر نے بتایا کہ بیرون ممالک پاکستانی چاول کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ ملے گا۔ سینیٹر سرمد علی کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی نے کہاکہ چاول کی برآمدات کے حوالے سے جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ پی آئی اے کے پیرس آپریشن کے موقع پر افسروں کے ساتھ اہل خانہ کے جانے کی تحقیقات کی جائیں گی۔ سینیٹر رانا محمود الحسن نے کہاکہ ملتان کا بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اسلام آباد کیلئے پروازیں بند کردی گئی ہیں۔ ایوان بالا کو وفاقی وزیر آبی وسائل مصدق ملک نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت دریائے سندھ پر کوئی کینال یا بیراج تعمیر نہیں کر رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ چولستان کینال دریائے ستلج پر تعمیر ہورہا ہے اور پنجاب حکومت اپنے حصے کے پانی سے چولستان کے منصوبے کو چلائے گی۔ تحریک التوا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے محرک سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ وفاقی حکومت صوبوں سے مشاورت کئے بغیر دریائے سندھ سے کینال نکالنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس پر عوام کو شدید تحفظات ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس معاملے پر سندھ نے واضح طور پر اعتراض کیا ہے کہ یہ جو چھ کینال بنا رہے ہیں اس کا مقصد چولستان کو ہریالی میں تبدیل کرنے کیلئے پانی کا رخ موڑا جارہا ہے‘ سندھ کا پانی روکا جا رہا ہے۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہاکہ اگر پانی زیادہ ہے تو نہریں بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر ارسا کے ریکارڈ کے مطابق ملک میں پانی کی قلت ہے اور اس سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ بلوچستان کا باقی ماندہ پانی بھی لے جانے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم تو خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں۔ سینیٹر سیف اللہ دھاریجو نے کہاکہ سندھ کے کئی اضلاع میں پانی کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پانی سندھ سے جاتا ہے اور اگر سندھ کے بیراج میں پانی مقررہ مقدار سے زیادہ نہ ہو تو پانی بلوچستان نہیں جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو ہم سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اس موقع پر سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہاکہ 1991میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوتا ہے جسے مشترکہ مفادات کونسل بھی منظور کرتی ہے اس کے تحت صوبوں کے پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہر صو بے کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کا استعمال اپنی ضرورت کے مطابق کرے تاہم کسی کو بھی اپنے حق سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اگر پنجاب نے اپنے حصے کے نہروں سے مزید نہریں نکالی ہیں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ سینیٹر پونجھو بھیل نے کہاکہ دریائے سندھ پر 6کینال کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ کو کم پانی مل رہا ہے۔ سینیٹر جان بلیدی نے کہاکہ سندھ کا پانی کسی صورت چوری نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں اس پر فیصلہ نہیں ہوتا اس پر عمل درآمد نہیں ہونا چاہیے۔ سینیٹر دوست علی جیسر نے کہاکہ سندھ اسمبلی نے پانی کے حوالے سے قرارداد منظور کیا تھا مگر اس کی کوئی بھی بات نہیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا ایک صوبہ ان حالات میں ناراض ہورہا ہے۔ وفاقی حکومت ان کینال کی منصوبہ بندی ختم کرے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں پانی کی شدید کمی واقع ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ 2030تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں ملک میں ڈیمز بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر آبی وسائل مصدق ملک نے تحریک التو کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ دریائے سندھ کے اوپر نہ تو کوئی ڈیم بن رہا ہے نہ ہی کوئی کینال بن رہا ہے اور نہ ہی کوئی بیراج بن رہی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ جو بتایا جارہا ہے اس میں بہت زیادہ تضادات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے دو صوبوں میں پانی کی شدید قلت چل رہی ہے جبکہ ایک صوبہ نئے کینال بنا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ جن کو بھی اعتراضات ہوں ان کے اعتراضات دور کرنے کیلئے تیار ہیں اور مل بیٹھ کر معاملہ حل کرسکتے ہیں۔ سینٹ اجلاس بعدازاں جمعہ دن ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور انہوں نے کہاکہ ہم میں پانی کی شدید جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ سندھ دریائے سندھ انہوںنے کہا پیپلز پارٹی کے حوالے سے نے کہاکہ اس ضمنی سوال ہے اور اس کیا جائے کے ساتھ ملک میں ہوتا ہے نہیں کر رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کیلئے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں، وفاقی وزیر اویس لغاری کا اعتراف
سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر پانی و بجلی اویس لغاری نے اعتراف کیا ہے کہ نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کے لیے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے سینیٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ وہ 6.5 فیصد بل وصول نہیں کر پاتے، وہ بوجھ حکومت یا صارفین اٹھائیں، ہم نے کہا کہ یہ مطالبہ ناجائز ہے، حکومت نے نیپرا کے پاس نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔ اگر یہ منظور ہوگئی تو اگلے سات برسوں میں حکومت پاکستان کو 650 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
اویس لغاری نے کہا کہ اخباروں میں لیک آڈٹ رپورٹ چھاپی گئی ہے، یہ سال 24-2023 اور ہماری حکومت سے پہلے کی رپورٹ ہے، ہم نے ایک سال میں گزشتہ سال کے 584 ارب لائن لاسز میں سے 191 ارب کم کیا ہے، پاکستان میں مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بجلی فراہم کرتی ہیں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے ایک کے الیکٹرک ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ پالیسی نافذ ہونے کے بعد مسابقتی مارکیٹ میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہوسکے گی،
وزیر توانائی نے کہا کہ کے الیکٹرک نہ صرف ڈسٹری بیوشن بلکہ جنریشن اور ٹرانسمیشن کمپنی بھی ہے، کے الیکٹرک کا ریٹ مقرر کرنے کا اختیار نیپرا کے پاس ہوتا ہے، کے الیکٹرک پٹیشن فائل کرتا ہے، پٹیشن میں بتایا جاتا ہے اس دوران اس کے نقصانات کتنے ہوئے، کتنے فیصد بل ریکور ہوں گے، ورکنگ کیپیٹل کی لاگت، آپریشنل اخراجات کا بھی پٹیشن میں بتایا جاتا ہے، منافع کیا ہوگا، یہ بھی پٹیشن میں بتایا جاتا ہے۔
اویس لغاری نے مزید کہا کہ کراچی الیکٹرک یہ بھی بتاتا ہے وہ سالانہ کتنے ارب روپے کی بجلی اپنے پلانٹس سے پیدا کرے گا، اس کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن پر کتنے اخراجات آئیں گے، آخر میں کے الیکٹرک کہتا ہے اسے "ریٹرن آن ایکویٹی" کی بنیاد پر فی یونٹ اتنی قیمت دی جائے، نیپرا عوام کے سامنے یہ تمام چیزیں رکھ کر سنتی اور اس کے بعد فیصلہ دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ موجودہ حکومت نے نیپرا کے فیصلے کا مکمل مطالعہ کیا، حکومت کے پاس نیپرا فیصلے کیخلاف نظرثانی فائل کرنے کیلئے صرف 10 دن ہوتے ہیں، ہم نے فیصلے کو مکمل طور پر پڑھا اس کے بعد ایک ریویو بھی فائل کیا، ہم نے کہا کہ جو ریٹ نیپرا نے کراچی الیکٹرک کو دیا ہے وہ جائز نہیں ہے، لائن لاسز کی اجازت 13.9 فیصد دی گئی ہے جو زیادہ ہے۔
ان کی اپنی رپورٹ کے مطابق لا اینڈ آرڈر مارجن دینے کے بعد یہ 8 یا 9 فیصد ہونے چاہئیں، وہ کہتے ہیں 6.5 فیصد بل وصول نہیں کرپاتے، تو وہ بوجھ حکومت یا صارفین اٹھائیں، ہم نے کہا یہ ناجائز ہے، وہ کہتے ہیں کہ ورکنگ کیپیٹل کی کاسٹ کائیبور پلس ایکس پرسنٹ ہے، ہم نے کہا کہ آڈٹ رپورٹس کے مطابق تو انہیں بینک سے قرض کائیبور پلس 0.5 یا 1 فیصد پر ملتا ہے، کنزیومر سے 2 فیصد کیوں لیا جائے؟
اویس لغاری نے مزید کہا کہ ٹیرف کا تعین کرنے میں 8 یا 9 مختلف پورشنز ہوتے ہیں، ہم نے ہر ایک میں ریڈکشن کی گزارش کی اور اسی بنیاد پر نیپرا میں ریویو فائل کیا، اگر ہمارا ریویو منظور ہو جاتا ہے تو اگلے 7 سالوں میں حکومت پاکستان کو 650 ارب روپے کی بچت ہو گی، اگر ریویو نہیں مانا جاتا تو ناجائز طور پر کے الیکٹرک کو 650 ارب روپے ادا کیے جائیں گے، اس ادائیگی کا نقصان پورے ملک کو برداشت کرنا پڑے گا۔
وزیر توانائی نے کہا کہ جو کمپنی اپنے اخراجات ری کور نہیں کر پاتی اس کا بوجھ کنزیومر یا حکومت برداشت کرتی ہے، صرف پچھلے سال حکومت کے الیکٹرک کو 175 ارب روپے ٹیرف ڈیفرینشل سبسڈی میں ادا کرچکی، کے الیکٹرک پر 175 ارب ضائع کرنے کے بجائے آپ اس رقم سے کتنے ترقیاتی منصوبے بنا سکتے تھے، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ٹیرف میں بہتری لانا ہوگی۔
اویس لغاری نے یہ بھی کہا کہ حکومتی ڈسکوز کا ٹیرف 100 فیصد ریکوری پر کیلکولیٹ ہوتا ہے، ہم ان کو ساڑھے 6 فیصد زیادہ کیوں پیش کرنے دیں، حکومت کے علاوہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے بھی نظرثانی کی پٹیشن دائر کی ہے۔