بنگلہ دیش کے پاکستان سے پھل درآمد کرنے کے امکانات روشن
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)بنگلہ دیشی درآمد کنندگان اور تاجروں کو سال بھر خصوصاً ماہ رمضان کی طلب کو پوری کرنے کے لیے پاکستان سے کھجور، نارنگی، دیگر پھلوں اور زرعی مصنوعات کی درآمد کے بڑے مواقع اور امکانات ہیں۔
اس بات کا تذکرہ فیڈریشن آف بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف بی سی سی آئی) نے ڈھاکہ میں ہونے والے پاکستان کے ایک تجارتی وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔
ایف بی سی سی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہت بڑا تجارتی خلا رہا ہے جبکہ پاکستان کے پاس بنگلہ دیشی مصنوعات برآمد کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
ایف بی سی سی آئی کی ایک پریس ریلیز کے مطابق دونوں ممالک کے تاجروں نے دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر زور دیا۔ یہ امور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ملاقات میں زیر بحث آئے۔
اجلاس کی صدارت ایف بی سی سی آئی کے ایڈمنسٹریٹر حفیظ الرحمان نے کی۔ اپنے استقبالیہ کلمات میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں رمضان کے مقدس مہینے میں کھجوروں کی بہت زیادہ مانگ ہوتی ہے جبکہ اس دوران دیگر پھلوں کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مقامی مارکیٹ میں سال بھر ملکی اور غیر ملکی پھلوں کی بہت زیادہ مانگ رہتی ہے۔
ایف بی سی سی آئی کے منتظم نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کے لیے پھلوں اور زرعی مصنوعات کا ایک سستا اور آسانی سے قابل رسائی ذریعہ بن سکتا ہے۔
بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کو بڑھانے پر زور دیتے ہوئے محمد حفیظ الرحمن نے کہا کہ مشترکہ اقدامات اور نجی شعبے میں باہمی تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کا موقع ہے۔
انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش تجارتی معاہدے کو مکمل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
دونوں ممالک کے تاجروں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تجارت کو آسان بنانے اور وسعت دینے کے لیے لاجسٹکس، سپلائی چین، کولڈ اسٹوریج، پیکیجنگ اور سامان کی نقل و حمل کے نظام کی ترقی پر زور دیا۔
اجلاس میں ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے تجارت اور سرمایہ کاری کے اتاشی زین عزیز، ایف بی سی سی آئی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ محمد ظفر اقبال، ایف بی سی سی آئی کے رہنماؤں، پاکستانی تجارتی وفد کے اراکین اور فریش فروٹ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے شرکت کی۔
مزیدپڑھیں:’پاکستان اب اپنے ڈالر خود چھاپ سکتا ہے‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف بی سی سی آئی کے دونوں ممالک کے پاکستان کے بنگلہ دیش کے درمیان
پڑھیں:
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
لاہور:ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا، جنوبی افریقا کے خلاف ٹی 20 سیریز میں فتح نے گرین شرٹس کے حوصلے بلند کر دیے۔
بابراعظم نے فارم کی جھلک دکھا کر بیٹنگ لائن کے حوالے سے بڑی تشویش کم کر دی، فہیم اشرف نے بھی خود کو آنے والے میگا ایونٹ کیلیے کارآمد ’’دو دھاری‘‘ تلوار ثابت کر دیا۔
کپتان سلمان علی آغا کے تفکرات بھی کم ہوگئے، وہ کہتے ہیں کہ کھیل کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہی کامیابی کی کنجی ہے، پاکستانی ٹیم کم بیک کرنا بھی جانتی ہے، شوپیس ایونٹ سے قبل کھلاڑیوں نے اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھ لیا۔
سینیئر بیٹر بابراعظم کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے ایک اچھی اننگز کے انتظار میں تھا، دباؤ تو ہر چیز میں ہوتا مگر اس سے نمٹتے کیسے ہیں یہ سب سے اہم ہے، فہیم اشرف کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان نے ہفتے کی شب کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹی 20 میچ میں جنوبی افریقا کو مات دے کر مختصر فارمیٹ کی سیریز بھی جیت لی، اس فتح سے گرین شرٹس کے آئندہ برس فروری میں بھارت اور سری لنکا میں شیڈول ٹی 20 ورلڈکپ کے لیے حوصلے بھی بلند ہوگئے ہیں۔
اس کامیابی نے کپتان سلمان علی آغا کے تفکرات بھی کم کرلیے ہیں، پروٹیز سے سیریز کے پہلے ٹی 20 میں شکست کے بعد خود سلمان کی ٹیم میں جگہ کے حوالے سے سوال اٹھنا شروع ہوگئے تھے، سیریز جیتنے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ اچھی ٹیم وہی ہوتی ہے جو اپنی بہترین کارکردگی کو برقرار رکھتی ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اب 3، 4 ماہ باقی ہیں، کھلاڑی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ چکے ہیں، بس اب ان کرداروں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
جنوبی افریقا کے خلاف سیریز کے آخری میچ میں فتح حاصل کرنے کے بعد سلمان علی آغا کا کہنا تھا کہ کھیل کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہی کامیابی کی کنجی ہے، ہمارے سامنے اگلے 20، 25 دنوں میں 14، 15 میچز ہیں اور سب کے لیے ہر میچ کھیلنا آسان نہیں ہوگا۔
انکا کہنا تھا کہ آخری میچ کی جیت اسی بات کا ثبوت ہے کہ یہی پاکستان ٹیم ہے جو عمدہ کم بیک کرنا جانتی ہے، ہمیں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے، ہم 1-0 کے خسارے سے دوچار ہونے کے بعد واپس آکر سیریز جیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس کامیابی میں بابراعظم نے 68 رنز بناکر اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ بھی قرار پائے، ان کی فارم میں واپسی سے بیٹنگ لائن کے حوالے سے بڑی تشویش تھوڑی کم ہوگئی ہے۔
میچ کے بعد ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے شائقین نے جس طرح سپورٹ کیا، یہ اننگز ان ہی کے نام کرتا ہوں، میں نے خود پر بھروسہ رکھا اور ٹیم نے مجھ پر یقین کیا، کافی عرصے سے ایسی اننگز کی تلاش میں تھا، دباؤ تو ہر چیز میں ہوتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ آپ اسے کس طرح سنبھالتے ہیں، میں نے کوشش کی کہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلوں، حالات کے لحاظ سے رنز بناؤں۔
انھوں نے کہا کہ میں نے خود پر اعتماد کیا اور کمزوریوں پر توجہ دی، ابتدا میں گیند اسپنرز کے لیے رک رہی تھی، اس لیے سلمان علی آغا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اسپنرز کو محتاط انداز میں کھیلیں، فاسٹ بولرز کے خلاف کھیلنا نسبتاً آسان تھا، ہم نے ارادہ کیا کہ کریز پر زیادہ سے زیادہ ٹھہریں اور لمبی پارٹنرشپ قائم کرنے کی کوشش کریں گے، یہ حکمت عملی ٹیم کے لیے سودمند رہی۔
بابراعظم کا کہنا تھا میری خواہش ہے کہ شائقین جس طرح مجھے سپورٹ کرتے ہیں، اسی طرح ہر پاکستانی کھلاڑی کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔
پلیئر آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کرنے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف نے کہا کہ میری ٹیم میں ایک مخصوص ذمہ داری ہے اور میں ہمیشہ اسی کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے وہ بیٹنگ، بولنگ یا فیلڈنگ ہو،اگر کبھی بیٹنگ یا بولنگ کا موقع نہ بھی ملے، تب بھی میں فیلڈنگ میں ٹیم کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ مجھے بطور بولر ایک فائدہ یہ ہے کہ میں بیٹر کے زاویے سے بھی سوچ سکتا ہوں، جب میں بولنگ کرتا ہوں تو یہی سوچ مدد دیتی ہے کہ بیٹر کیا توقع رکھتا ہے، میں ہمیشہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق گیند یا بیٹ سے خود کو ڈھالنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔