پاک چائنہ کاروبار سے منسلک تاجروں کے لیے نئے قوانین لاگو، ایک سال میں کتنا لین دین کرسکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
پاک چائنہ کاروبار سے منسلک تاجروں کے لیے نئے قوانین لاگو کردیے گئے ہیں، کاروباری افراد ایک سال میں 50 لاکھ روپے کا لین دین کرنے کے پابند ہوں گے ۔
پاک چائنہ کاروبار سے منسلک کاروباری محمد اسماعیل نے وی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ پاک چائنہ کاروبار سے منسلک افراد کو بے روزگار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک چھوٹے کاروباری کے اکاونٹ میں پانچ ملین روپے کیسے ممکن ہیں ؟ یہ سراسر زیادتی ہے اور نسلوں کو بے روزگار کرنے کی سازش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے جوائنٹ ورکنگ گروپ کا پانچواں اجلاس، باہمی تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ
محمد اسماعیل نے کہا کہ کاروباری افراد پہلے ہی چیمبر آف کامرس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، چھوٹے کاروباری افراد کے لیے 4 سے 4 لاکھ روپے مختص کیے جائیں اور منظم نظام نافذ کیا جائے، نئے بننے والے ایس او پیز کی شدید مخالفت کرتے ہیں جو کہ تاجروں کے حق میں نئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاک چائنہ بارڈر پر تاجروں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، پاکستان سے جڑی کئی بارڈر تجارت ہوتی ہے مگر پاک چائنہ بارڈر پر صرف ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے فروری میں آل پارٹی میٹنگ بلائی گئی ہے تاکہ تاجروں کو درپیش مسائل پر بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔
محمد اسماعیل نے کہا کہ چائنہ بارڈر پر تمام تاجروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاتا ہے، مگر گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس کی قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں، اس وجہ سے ہماری آواز کوئی نہیں سنتا اور ہمیں یکطرفہ ظلم و زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گلگت کے تاجروں سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ہم سے تمام ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں، جبکہ تورخم بارڈر پر لوکل لوگوں کے لیے تجارت فری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے، چینی سفیر
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اعلی حکام اپنے رشتہ داروں کو بارڈر پاس دیتے ہیں جس سے مقامی کاروباری افراد کو نقصان ہوتا ہے، اگر پاکستان بھر کے لوگوں کو بارڈر پاس دیا گیا تو گلگت بلتستان کے نوجوان تاجروں کو شدید نقصان ہوگا اور وہ بے روزگار ہوجائیں گے۔
ہنزہ چیمبر آف کامرس کے صدر رحمت علی نے نئے قوانین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے تاجر چائنہ یا کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو ان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پورے علاقے اور ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو بارڈر پاس نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ بارڈر پاس صرف انہی لوگوں کو دیا جائے جو کاروبار سے وابستہ ہیں تاکہ پاک چائنہ تعلقات اور کاروبار مضبوط ہوں۔
رحمت علی نے مزید کہا کہ 5 ملین روپے کے سالانہ لین دین کے قوانین لاگو کیے گئے ہیں، مگر بگیج پہلے سے ہی بند ہے، اس لیے نئے قوانین کی حمایت کرتا ہوں تاکہ کاروباری صورتحال بہتر ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی وزیراعظم کے دورے کے موقعے پر سی پیک کے اگلے مرحلے کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوں گے، ملک ایوب سنبل
ڈپٹی سیکریٹری گلگت بلتستان ہوم اینڈ پریزنز ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ نئے ایس او پیز تیاری کے مراحل میں ہیں اور ابھی تک سرکاری طور پر جاری نہیں کیے گئے، اگر کوئی شخص کاروباری ہے تو اسے پورے سال میں کم از کم 5 ملین روپے کی لین دین کرنی چاہیے۔
ڈپٹی سیکریٹری نے مزید بتایا کہ ایوانِ تجارت و صنعت کے ساتھ ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور ایس او پیز کو حتمی شکل دینے کا عمل جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بارڈر ٹریڈ پاکستان تجارت چین گلگت بلتستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بارڈر ٹریڈ پاکستان چین گلگت بلتستان کاروباری افراد گلگت بلتستان نئے قوانین بارڈر پاس تاجروں کے نے کہا کہ لین دین یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم نے FBR کا جائزہ ماڈل تمام وفاقی ملازمین پر لاگو کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے متعارف کرائے گئے نئے نظام کے حوصلہ افزا نتائج دیکھ کر وزیراعظم شہباز شریف نے اس ماڈل کو پوری وفاقی حکومت کے تمام ملازمین پر نافذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔
وزیر خزانہ کی زیر قیادت تشکیل دی گئی اس کمیٹی میں کابینہ کے دیگر ارکان، متعلقہ وفاقی سیکرٹریز، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور کارپوریٹ سیکٹر کے کم از کم دو ہیومن ریسورس کے ماہرین شامل ہیں۔
اس کمیٹی کو تمام وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں اور سول سروس گروپس میں مرحلہ وار وہی نظام نافذ کا منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے جو ایف بی آر میں نافذ کیا جا چکا ہے۔
اس ضمن میں منگل کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ 30؍ روز میں اپنی تجاویز پیش کرے۔ کمیٹی کی شرائط کار میں درج ذیل باتیں شامل ہیں۔
۱۔ ایف بی آر میں نافذ کردہ نظام، اس کے فریم ورک، طریقہ کار، جائزے کی شرائط وغیرہ کا بغور مطالعہ کرنا۔ ۲۔ کام کاج اور تنظیمی ڈھانچے کے تنوع پر غور کرتے ہوئے، اس بات کا جائزہ لینا کہ مختلف وزارتوں اور سروس گروپس پر اس ماڈل کا اطلاق کیسے ہوگا، یہ ان کیلئے کیسے موافق ثابت ہوگا اور کس حد تک اس کا اطلاق یقینی بنایا جا سکے گا۔
۳۔ اس ماڈل کے نفاذ کیلئے ضروری قانونی اور انتظامی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا۔ ۴۔ اس نظام کو بامقصد، شفاف اور قابل احتساب حد تک نافذ کرنے کیلئے معیاری ایوالیوشن ٹمپلیٹ، فیڈ بیک میکنزم اور کارکردگی کے اشاریے (پرفارمنس انڈیکیٹرز) تیار کرنا۔ ۵۔ ادارہ جاتی انتظامات، صلاحیت سازی کی ضروریات، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ہر زاویے (تھری سکسٹی ڈگری) سے جائزہ ماڈل کے موثر اور رازدارانہ انداز سے نفاذ کیلئے ضروری حفاظتی اقدامات تجویز کرنا۔
۶۔ اس ماڈل کو مرحلہ نافذ کرنے کا پلان تیار کرنا، جس میں منتخب وزارتوں میں پائلٹ ٹیسٹنگ اور مکمل نفاذ کیلئے ٹائم لائن تیار کرنا بھی شامل ہے۔ قبل ازیں، دی نیوز نے ایف بی آر میں کسٹمز اینڈ ان لینڈ ریونیو (انکم ٹیکس) سروس کے افسران پر اس نئے نظام کے نفاذ کی خبر دی تھی۔
یہ نظام طویل عرصہ سے تنقید کا شکار سالانہ کارکردگی رپورٹ (اے سی آر) کے نظام کی جگہ پر لایا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے، وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر کیلئے اس نظام کے نفاذ کی منظوری دی تھی جس کے بعد کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (انکم ٹیکس گروپ) کے 98؍ فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40؍ فیصد کردیا گیا۔
نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جس کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔
نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔
(انصار عباسی)
Post Views: 1