حکمرانی کا بحران …چند فکری تضادات
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پاکستان میں ہمیشہ سے حکمرانی کا بحران رہا ہے۔اس کی وجہ سے عام آدمی سمیت ادارہ جاتی سطح پر مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے۔اگرچہ دنیا بھر میں حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آرہی ہیں مگر ہم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔2010 میں اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہم اپنے نظام کو مرکزیت کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ہم نچلی سطح پر اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عام آدمی کے روزمرہ کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ادارہ جاتی سطح پر ان کی شنوائی نہیں ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ مضبوط، مربوط اور خودمختار مقامی حکومتوں کے نظام کی نفی بھی ہے۔ہم صوبائی خود مختاری کی بات تو کرتے ہیں مگر صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں اضلاع کو خود مختار بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے آئین میں تین سطح کی حکومتوں کا وجود موجود ہے جن میں وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتیں شامل ہیں۔
آئین پاکستان کی شق 140-Aصوبوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں خود مختار مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنائیں۔مگر ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات میں مقامی حکومتیں اول تو ہیں ہی نہیں اور اگر یہ مقامی حکومتیں کسی مصلحت کے تحت بنائی جاتی ہیں تو اس کو کمزور رکھا جاتا ہے۔ہماری سیاسی اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ان کے لیے سیاسی خطرات پیدا کرے گا۔
اسی طرح سے صوبائی حکومتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ مضبوط مقامی حکومتوں کا تصور ان کی صوبائی سطح پر سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس کھیل میں کوئی ایک سیاسی جماعت شامل نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا اتحاد نظر آتا ہے ۔جب نظام واحدانی اور مرکزیت کی بنیاد پر چلایا جائے تواس کا نتیجہ بری حکمرانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
پاکستان میں تسلسل کے ساتھ بڑے اور چھوٹے شہروں بشمول دیہی علاقوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ہمارا سیاسی انتظامی اور معاشی سطح کا ڈھانچہ کافی حد تک خرابیوں کی نشاندہی کر رہا ہے مگر ہم اس میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں۔حالانکہ ہم جتنی حد تک اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کریں گے اتنا ہی عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔لیکن شاید عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا موجودہ حکمرانی کے نظام سے اعتماد کمزور ہو رہا ہے یا وہ بد دل ہے۔
ایک واضح خلیج حکومت اور عام آدمی کے درمیان دیکھنے کو مل رہی ہے۔اصل میں جب طبقاتی بنیادوں پر سیاسی نظام کوہی چلایا جائے گا تو اس سے محرومی کی سیاست جنم لیتی ہے یا لوگوں کے اندر تفریق کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ یہ نظام ہمارے لیے نہیں ہے بلکہ اس نظام کے اصل فائدہ مند طاقتور طبقات ہیں۔
جو بھی نظام لوگوں کی توقعات اور سوچ کے برعکس چلایا جائے گا یا اس نظام میں عام آدمی کی شرکت نہیں ہوگی تو اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔جو بھی نظام اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں تو ان کی اہمیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔اچھی حکمرانی کی بنیاد ادارہ جاتی بالادستی ہوتی ہے۔ ہمارا سارا حکمرانی کا نظام شخصیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اور شخصیت پرستی نے اس نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان آپس میں ٹکراؤ بھی نظرآتا ہے۔صوبائی حکومتیں زیادہ تر اپنی ناکامی کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال کر خود کو سیاسی طور پر بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اچھی حکمرانی کی ذمے داری وفاقی حکومت کے مقابلے میں صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔صوبائی سطح پر صوبائی حکومتوں کا نگرانی کا نظام ہو یا جواب دہی پر مبنی نظام ان میں شفافیت کے پہلو بہت کمزور نظر آتے ہیں۔کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور لوٹ مار بھی ہمارے نظام کا حصہ ہے۔ہماری حکمرانی کے نظام پر جو بھی سوالات اٹھ رہے ہیں وہ محض داخلی سیاست تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی جو معیارات حکمرانی کے نظام کے حوالے سے موجود ہیں وہاں بھی ہماری کارکردگی پر تنقیدی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
ریاست کی حکمرانی کا نظام بنیادی طور پہ عوامی مفادات کی ترجمانی کرتا ہے۔کیونکہ جس ریاست میں عوام طاقتور ہوتے ہیں یا ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے وہی نظام لوگوں میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھتے ہیں۔مصنوعی فرسودہ اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بنائے جانے والے نظام لوگوں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ ایسے نظاموں کو تسلیم کرتے ہیں جن میں عام آدمی کا کوئی بڑا حصہ نہ ہو۔ہمارے ہاں لوگوں کی بنیاد پر جو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بن رہے ہیں اگر ان کا بھی جائزہ لیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس منصوبہ بندی کا فقدان ہے یا مسائل کی درست تشخیص نہیں ہے۔
لوگ ترقی کے نام پر کچھ اور چاہتے ہیں جب کہ حکمران طبقے کی ترقی کا زاویہ عام آدمی کی سوچ سے بہت مختلف ہے۔ اگر ہم تجزیہ کریں حکمران طبقات کی ترقی اور عام آدمی کی ترقی میں کافی تضادات ہیں۔بنیادی اصول یہی ہے کہ جس حد تک اختیارات سیاسی انتظامی اور مالی بنیادوں پر نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں گے تو اسی بنیاد پر مقامی ترقی کا ماڈل زیادہ پائیدار ہو سکے گا۔
آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت پکڑ چکا ہے۔ایسے میں سرکاری وسائل کو بنیاد بنا کر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بڑے بڑے اشتہارات کو جاری کر کے لوگوں کو ترقی کے نام پر سہانے خواب دکھاتی ہیں۔اشتہارات کی دنیا کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان بہت بدل چکا ہے اور پاکستان ترقی کے نام پر باقی ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔لیکن جب آپ زمین پہ جاتے ہیں یا زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں تو وہاں حکمرانی کے نظام کی تلخیاں بہت ہیں۔
اشتہارات کو بنیاد بنا کر ترقی کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے یا ان کو سچائی کے مقابلے میں ایک جھوٹی تصویر دکھائی جاتی ہے۔پہلے سے موجود منصوبوں پر نیا میک اپ کیا جاتا ہے اور اپنے نام کی تختیاں لگا کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ہم ہی ترقی کے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔یہ بات سوچنی ہوگی یا اس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس بنیاد پرتبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے تیار نہیں ہیں حکمرانی کے نظام صوبائی حکومتیں ترقی کے نام پر مقامی حکومتوں صوبائی حکومت عام آدمی کی کی بنیاد پر حکمرانی کا حکومتوں کا رہے ہیں کا نظام جاتا ہے ہیں ہی ہے اور
پڑھیں:
آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن
کراچی : جمعیت علماءاسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں ہمیں سوچنا چاہیے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی ہے یا جمہوریت؟۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آئین کو اکثر موم کی ناک بنا کر اس کی شکل تبدیل کی جاتی ہے، مارشل لا آئے تو پورے آئین کو لپیٹ کر اس کی وقعت کو ختم کردیا جاتا ہے، تشویش ہے پاکستان معاشی طورپر مزید کمزور ہورہا ہے، افغانستان کی معیشت بھی پاکستان سے بہتر ہے، ملک میں اگر امن نہیں ہوگا تو معیشت نہیں سنبھلے گی، اس کے لیے ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا، ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحرانوں کا حل قومی سطح پر باہمی اعتماد اور اداروں کی جانب سے عوامی فیصلوں کے احترام میں ہے، اگر صلح کی تجویز آئے تو خدا کا حکم ہے کہ صلح کرو۔
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ پورا خطہ ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن پاکستان مسلسل معاشی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے، چاروں صوبوں میں میثاق پاکستان کا ایک ہی آئین ہے لیکن یہاں جب چاہا جاتا ہے اس آئین کی شکل تبدیل کر دی جاتی ہے، ہم ضیاءالحق کے مارشل لا کے دور سے جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں اور آج بھی وہی جدوجہد جاری ہے، اگر سیاست دان استقامت کا مظاہرہ کریں اور ادارے عوامی فیصلوں کو قبول کریں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی مداخلت نے نظام کو کمزور کر دیا ہے جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ملکی سلامتی کے معاملے پر تمام قوتوں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا، اگر ملک میں امن قائم نہیں ہوتا تو معاشی بہتری ممکن نہیں اس لیے تمام ریاستی و سیاسی اداروں کو قومی مفاد میں متحد ہونا ہوگا، ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے، او آئی سی علامتی بلاک ہے، پاکستان اور سعودی عرب میں مسلم امہ کی قیادت کی صلاحیت موجود ہے، پاک سعودی عرب معاہدے کو خوش آمدید کہنا چاہیے، مسلم دنیا میں جہاں خرابیاں ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہوگا۔