اقوام متحدہ اجلاس سے قبل ٹرمپ کی میزبانی میں طاقتور اسلامی ممالک کے سربراہان کی اہم ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
نیویارک اسلام آباد(صغیر چوہدری )اقوام متحدہ اجلاس سے قبل بڑی سفارتی سرگرمی،ٹرمپ کی میزبانی میں طاقتور اسلامی ممالک کے سربراہان کی اہم ملاقات، فلسطین اور اسرائیلی حملے پر غور،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک بڑی اور غیر معمولی سفارتی میٹنگ ہونے جارہی ہے جس کی میزبانی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس ملاقات میں دنیا کے طاقتور اسلامی ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے جن میں سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، مصر اور پاکستان شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ سے کہا تھا کہ وہ اپنے تحفظات براہِ راست اُن کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ معاملات کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ یہ ملاقات ایک گروپ کی صورت میں ہوگی جسے سفارتی حلقے ایک بڑا بریک تھرو قرار دے رہے ہیں۔
اہم ایجنڈا میں فلسطین اور اسرائیلی جارحیت پر بات ہوگی میٹنگ کے دوران دو بڑے ایشوز زیرِ بحث آئیں گے فلسطین کو آزاد ریاست کی حیثیت دلوانا اور دنیا کے نقشے پر ایک تسلیم شدہ حیثیت کے ساتھ ابھارنا۔
اور قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے تحفظات اور اس کے علاقائی و عالمی اثرات اسلامی ممالک کا مؤقف ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی ایسے اقدامات سے باز نہ آئے تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ بڑھے گا بلکہ یہ امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔ ملاقات سے ایک بڑا بریک تھرو کا امکانات ہے ماہرین کے مطابق یہ ملاقات عالمی سفارت کاری میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ طاقتور اسلامی ممالک کی اجتماعی کوشش سے فلسطین کے حق میں رائے عامہ مزید مضبوط ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اسے آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی ممالک ٹرمپ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا منظرنامہ یکسر بدل سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: طاقتور اسلامی ممالک اسلامی ممالک کے اور اس
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔