چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروادیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملک میں عدالتی نظام کو جدید بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروائی ہیں تاکہ شفافیت اور انصاف کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اعلیٰ معیار کو قائم کیا جائے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس اقدام کا مقصد شہریوں اور مدعی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ان تک مؤثر انداز میں انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے پاکستان کے عدالتی نظام کو مؤثر، فعال اور جدید بنانے کے لیے ایڈوانسڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سسٹم میں متعارف کرایا۔
نئے انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام کے تحت (ای- ایفیڈیوٹ) الیکٹرانک بیانِ حلفی متعارف کرایا گیا ہے جو کہ مقدمات دائر کرنے کے نظام کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ وکلا اور سائلین کے لیے مصدقہ نقول حاصل کرنے کے طریقہ کار کو بھی آسان بنائے گا۔
ضلعی عدلیہ کے کردار کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے دور دراز علاقوں کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے عدالتوں کو درپیش وسائل اور مسائل کا مشاہدہ کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شفافیت اور عوامی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے مدعی، سول سوسائٹی اور وکلا کے حوالے سے رائے عامہ کا نظام بھی قائم کیے گئے ہیں۔
تعیناتیوں میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی نے متعدد کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو سینئر ججز اور اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان پر مشتمل ہیں۔
کمیٹیوں کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) کے سیکریٹری، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) اور سپریم جوڈیشل کمیشن کونسل (ایس جے سی) میں تعیناتیوں کے عمل کی نگرانی کرنا شامل ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے جبکہ ان کے ساتھ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید بھی انٹرویو پینل میں شامل ہوں گے، لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کے لیے صوبائی چیف سیکریٹریز امیدوار نامزد کریں گے۔
ججز کی تعیناتی کے لیے قائم ادارے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی۔
اسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے کمیٹی جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہوگی۔
مذکورہ کمیٹیاں امیدواروں کا انٹرویو کریں گی جس میں 5 ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور صوبوں کے چیف سیکریٹریز کی جانب سے نامزد حاضر سروس اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج شامل ہوں گے۔
دوسری طرف ایک علیحدہ پیش رفت میں پاکستان بار کونسل نے سال 2025 کے لیے لاہور سے چوہدری طاہر نصراللہ وڑائچ کو اپنے وائس چیئرمین کے طور پر منتخب کیا، جبکہ پشاور سے محمد طارق آفریدی کو بطور ممبر ایگزیکٹیو کمیٹی شامل کرلیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی تعیناتی کے لیے کے سیکریٹری ا ف پاکستان چیف جسٹس
پڑھیں:
آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امریکی حکومت کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چار ججوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کو نظام انصاف کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔
ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں اپنے عدالتی فرائض انجام دینے والے ججوں پر حملہ اور قانون کی عملداری سمیت ان اقدار کی کھلی توہین ہیں جن کا امریکہ طویل عرصہ سے دفاع کرتا آیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ روز عدالت کے ان ججوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا جو افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کے ہاتھوں مبینہ جنگی جرائم سے متعلق 2020 کے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اور جنہوں نے گزشتہ سال اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس وقت کے وزیردفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
(جاری ہے)
یہ چاروں جج خواتین ہیں جن کا تعلق بینن، پیرو، سلوانیہ اور یوگنڈا سے ہے۔
فیصلہ واپس لینے کا مطالبہوولکر ترک کا کہنا ہےکہ عدالت کے ججوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بے حد پریشان کن ہے۔ امریکہ کی حکومت اس پر فوری نظرثانی کرے اور اسے واپس لیا جائے۔
'آئی سی سی' کو دنیا بھرکے 125 ممالک تسلیم کرتے ہیں جس نے امریکہ کی حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے پابندیوں کو بین الاقوامی عدالتی ادارے کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی کھلی کوشش قرار دیا ہے۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان سے سنگین ترین جرائم پر احتساب یقینی بنانے کی عالمی کوششوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کے اس فیصلے سے قانون کی عملداری کے لیے مشترکہ عزم، عدم احتساب کے خلاف جدوجہد اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔