مولوی زادہ، ایمان مزاری اور گستاخانِ رسول
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث زیر حراست گستاخ ملزمان کو تحفظ دینے کے لئے ایک ’’مولوی زادہ‘‘بھی میدان میں آگیا ہے۔مذکورہ گستاخ ملزمان کی وکیل ایمان مزاری کی جانب سے ایک یوٹیوبر کو دیئے گئے انٹرویو کی بنیاد پر مذکورہ مولوی زادے نے بھی گستاخوں کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا ہے۔اس مولوی زادے نے ایمان مزاری کے انٹرویو پر ایسے یقین کر لیا ہے کہ جیسے موصوفہ رابعہ بصری ہوں،اب اگر وہ مولوی زادہ ’’ایمان‘‘پریقین کامل کر ہی چکا ہے تو اسے میرا چیلنج ہے کہ وہ صرف خود نہیں،بلکہ اپنے پیر و مرشد جاوید احمد غامدی کو بھی امریکہ سے بلاکر پاکستان لے آئے اور پھر پورے پاکستان میں اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کئے گئے تقریبا ًپانچ سو گستاخوں میں سے کسی ایک گستاخ کے خلاف بھی درج مقدمے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت بھی سامنے لے آئے تو یہ خاکسار بھی اس کے موقف کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ورنہ اسے چاہیے کہ وہ توبہ تائب ہو۔اس کے فیس بک وال پر گستاخوں کے سہولت کاروں کا جھوٹا بیانیہ نہیں بلکہ اس کے باپ دادا کے بیانات اچھے لگتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایمان مزاری کون ہے؟کیا ایمان مزاری گستاخ ملزمان کی وکالت نہیں کررہی؟اگر وہ گستاخوں کی وکالت کر رہی ہے تو کیا وہ یہ تسلیم کرے گی کہ ’’گستاخ‘‘واقعی گستاخ ہیں؟وہ تو اپنے کلائنٹس کا دفاع کرنے کے لئے جھوٹا یا سچا کوئی بھی بیانیہ بنائے گی۔اب یہ ثابت کس فورم پر ہو گا کہ جنہیں گستاخ کہا جارہا ہے،وہ واقعی گستاخ ہیں؟یا جن گستاخوں کو بے گناہ کہا جارہا ہے،وہ واقعی بے گناہ ہیں؟ یقینا اس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق عدالتی فورم پر ہو گا۔نہ تو فیس بک پر کسی مولوی زادے نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی یوٹیوبر نے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے جون 2021ء سے لے کر اب تک تقریباً پانچ سو گستاخ ملک بھر سے گرفتار کئے جاچکے ہیں۔جن میں سے 24گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹس سزائے موت سنا چکی ہیں۔دو گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔جنہیں سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لئے اپیلیں ہائیکورٹس میں زیر سماعت ہیں۔باقی تمام زیر حراست گستاخوں کے خلاف بھی مقدمات اس وقت انڈر ٹرائل ہیں۔ان کے فیصلے بھی جلد ہو جائیں گے۔مذکورہ حقائق تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ جن کے خلاف سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے ہیں،وہ واقعی گستاخ ہیں۔اسی لئے تو عدالتیں انہیں سزائیں سنا رہی ہیں۔عدالتیں ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے بغیر کسی دبا کے بالکل آزادانہ ماحول میں آئین و قانون کے مطابق میرٹ پر کررہی ہیں۔مذکورہ زیر حراست تقریبا ًپانچ سو گستاخ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت کسی ایک مقدمے کے حوالے سے یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ایک دن بھی ٹرائل کے دوران عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے لئے ’’جتھے‘‘ لائے گئے ہوں۔صرف مدعی،مدعی مقدمہ کا وکیل اور گواہ ہی عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔کوئی ایک ایسا غیر متعلقہ شخص عدالت میں نہیں لایا جاتا کہ جس کا مقدمے سے تعلق نہ ہو۔اب تک عدالتوں کی جانب سے گستاخوں کو سزائیں سنانا اور کسی ایک گستاخ ملزم کا بھی مقدمے سے بری نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام مقدمات بالکل درست ہیں۔گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے گستاخوں کے سہولت کاروں کی جانب سے جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو اس کے متعلق ثبوت عدالتوں کے سامنے لائے جاتے اور ان ثبوتوں کی بنیاد پر یقینا عدالتیں ملزمان کو ریلیف بھی دیتیں۔اس لئے کہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی کریمنل مقدمے میں ذرہ سا شک کا فائدہ بھی ہمیشہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے۔
گستاخوں کے سہولت کار بالخصوص ایمان مزاری جو پروپیگنڈہ کررہی ہے،اسے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت تو سامنے لائے۔صرف کسی پر الزام لگا دینا ہی تو کافی نہیں۔ایمان مزاری گوجرانوالہ کے ایک مولوی زادے کے لئے تو شائد رابعہ بصری ہو کہ وہ محض اس کے الزام کو ہی درست مان کر اس پر ایمان لے آئے۔مگر قوم ثبوت چاہتی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ بعض افراد پر توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کا غلط اندراج کرانے یا توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میلنگ کرنے کے بے بنیاد الزامات لگا کر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے گستاخوں کو تحفظ دیا جائے۔یہ خاکسار اس حوالے سے بالکل کلیئر ہے کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے کسی ایک گستاخ کو بھی قانونی سزا سے نہیں بچنا چاہئیے۔مزید یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پر توہین مذہب و توہین رسالت کا جھوٹا الزام عائد کرتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے ارتکاب پر اکساتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میل کرتا ہے تو اسے بھی قانون کے مطابق سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔مگر اس حوالے سے محض زبانی الزامات کافی نہیں بلکہ ثبوت کا ہونا ضروری ہے اور اب تک زیر حراست گستاخوں کے خلاف تو ثبوت ہیں مگر اس کے برعکس کوئی ثبوت نہیں۔صرف الزامات ہی ہیں اور صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم یا بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری بات کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف مقدمات کا اندراج (پیکا) جسے سادہ لفظوں میں انسداد سائبر کرائم ایکٹ کہا جاسکتا ہے،کے تحت کیا جارہا ہے۔ پیکا کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں درج مقدمات میں زبانی شہادتیں نہیں بلکہ ’’ڈیجیٹل شواہد‘‘کی اہمیت ہوتی ہے۔ان مقدمات میں سب سے اہم ثبوت ملزم سے برآمد ہونے والا اس کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہوتا ہے۔ملزم کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مجرم ہے یا بے گناہ؟سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث جن زیر حراست مجرمان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،ان کے موبائل فون وغیرہ ایف آئی اے کے قبضے میں ہیں۔ان موبائل فون وغیرہ کے فرانزک رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جو انہیں مجرم ثابت کرتی ہیں۔گستاخوں کے تمام سہولت کاروں بشمول گوجرانوالہ کے مولوی زادے کو چیلنج ہے کہ وہ کسی ایک انڈر ٹرائل گستاخ کے مقدمے کو بطور مثال پیش کر دیں کہ اس کے خلاف مقدمہ غلط درج کیا گیا ہے،تو اس سے برآمد ہونے والے موبائل فون وغیرہ کا ان کی مرضی کے لیب سے دوبارہ فرانزک کروا لیا جائے۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔اس میں کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس تو ہے نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: توہین مذہب و توہین رسالت کے گستاخوں کے خلاف قانون کے مطابق گستاخ ملزمان ایمان مزاری کی بنیاد پر کرنے کے لئے گستاخ ملزم گستاخوں کو کی جانب سے ایف آئی اے نہیں بلکہ جارہا ہے کرتا ہے کسی ایک بے گناہ
پڑھیں:
کچھ خالص ہے؟؟!!!
اسلام ٹائمز: اب اگر کوئی پوچھے کہ "کچھ خالص ہے؟؟" تو میں جواب دیتا ہوں: ہاں۔۔۔۔ جھوٹ، دھوکہ، فریب، لالچ، نفاق، کذب، بددیانتی اور بد نیتی۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی خالص ہیں، نہ ان میں خوف کی آمیزش ہوئی۔۔۔۔۔۔ نہ شرم کی۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی انسان تھے۔۔۔۔۔۔۔ اب صرف تصویر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص نہیں۔۔۔۔۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
بازار میں سب کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوکہ، وعدے، دعوں کی گونج اور ضمیر کی قیمت۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کچھ خالص نہیں۔۔۔۔۔
یہ وہ عہد ہے، جہاں ہر سچ کے ساتھ کوئی مفاد منسلک ہے۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ہر جذبہ کسی مصلحت کے تحت پروان چڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور ہر لفظ کے پیچھے ایک خفیہ سودا چھپا ہے۔۔۔۔۔۔۔
دکاندار اطمینان سے کہتا ہوا نظر آتا ہے:
"یہ تیل خالص ہے!"
میں مسکرایا اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ —
اگر جھوٹ کو بھی ناپ کر بیچا جا سکتا،
تو یہ بازار فریب کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہوتا۔
چند قدم آگے بڑھا تو گلی کے نکڑ پر ایک مدرسہ دیکھا۔
جہاں واعظ مفاخرانہ انداز میں گویا تھا
"بس ہمارا ہی مسلک خالص ہے!"
میں نے سنا ضرور مگر سمجھ نہ سکا۔۔۔۔۔
اور یہی سوچتا ہوا چل دیا کہ
جب خدا کے نام پر بھی تجارتی مقابلے شروع ہو جائیں،
تو پھر ابلیس کو نئی منڈی تلاش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اداروں کے دروازوں پر "میرٹ" کے سنہری بورڈ آویزاں ہیں۔۔۔۔۔۔
مگر اندر کی فضا سفارش سے آلودہ ہے۔
حکومت "عوام کی خدمت" کے نعرے تو لگاتی ہے،
مگر عوام کے نصیب میں غربت ، بھوک و افلاس، امیدیں، بجلی کی بندش، پانی کی قلت، ٹیکسوں کا بوجھ اور کبھی تو دن بدلیں گے جیسی آس ہی ہے۔۔۔۔۔۔
ہاں یہاں اگر کچھ خالص ہے تو وہ ہے انتظار۔۔۔۔۔۔
کہ ممکن ہے کوئی آس حقیقت کا روپ دھار لے۔۔۔۔۔۔
کسان "خالص بیج" کی تلاش میں نکلا تو ہے
مگر لوٹا تو قرض، کیمیکل اور تھکن کی پوٹلی اٹھائے۔
مزدور "مزدوری" ڈھونڈتا ہے تو
اُسے ادھورا پیٹ، آدھی اُجرت اور مکمل بے بسی ہی ملتی ہے۔
مذہب کے بازار میں "نجات" کے دروازے بالکل بند ہیں اور اگر کچھ ہے تو وہ ہر عمل پر صرف سزا ہی سزا۔۔۔۔۔۔۔
ہر فتوے پر نیا لیبل، نئی تشریح، نئی شرط۔
میں سوچتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جب حق کی بھی ذیلی شاخیں بن جائیں،
تو باطل کو اپنی شناخت کی فکر کیوں ہو؟
محلے کے بزرگ اکثر ماضی کا نوحہ پڑھتے ہیں:
"بیٹا! پہلے وقتوں میں سب کچھ خالص تھا۔۔۔۔ نیتیں، رشتے، وقت، انسان اور دعائیں۔"
میں سوچتا ہوں:
"پھر ملاوٹ کہاں سے آئی؟"
پر کوئی جواب نہیں۔۔۔۔۔۔
شاید ہم سب نے تھوڑا تھوڑا زہر
اپنی آسانیوں کے عوض خرید لیا۔
اور اب روح کے خمیر میں بھی کیمیائی ملاوٹ شامل ہوچکی ہے۔
سیاست دان ایمان بیچتے ہیں،
مولوی فرقے۔۔۔۔۔۔۔
استاد نمبر۔۔۔۔۔۔۔
اور میڈیا خوف۔۔۔۔۔۔
سب کے کاروبار رواں ہیں،
سب کامیاب ہیں۔۔۔۔۔
بس سچ کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔۔۔۔۔۔
ہم نے "خالص" کو خود دبا دیا۔۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ اس منڈی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔۔۔۔۔۔
وہ سستا نہیں۔۔۔۔۔۔
وہ نمائشی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ صرف سچ ہے۔۔۔۔۔۔
اور سچ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے
کہ وہ جھوٹ کی طرح دلچسپ نہیں۔۔۔۔۔۔
اب اگر کوئی پوچھے کہ
"کچھ خالص ہے؟؟"
تو میں جواب دیتا ہوں:
ہاں۔۔۔۔ جھوٹ، دھوکہ، فریب، لالچ، نفاق، کذب، بددیانتی اور بد نیتی۔۔۔۔۔۔
وہ اب بھی خالص ہیں
نہ ان میں خوف کی آمیزش ہوئی۔۔۔۔۔۔
نہ شرم کی۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی انسان تھے۔۔۔۔۔۔۔
اب صرف تصویر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص نہیں۔۔۔۔۔
خلوص اب نایاب جنس ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور سچ وہ پرندہ ہے، جسے ہم نے اپنی آسائش کی آگ میں خود جلا دیا۔۔۔۔۔۔