Daily Ausaf:
2025-07-26@00:32:18 GMT

مولوی زادہ، ایمان مزاری اور گستاخانِ رسول

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث زیر حراست گستاخ ملزمان کو تحفظ دینے کے لئے ایک ’’مولوی زادہ‘‘بھی میدان میں آگیا ہے۔مذکورہ گستاخ ملزمان کی وکیل ایمان مزاری کی جانب سے ایک یوٹیوبر کو دیئے گئے انٹرویو کی بنیاد پر مذکورہ مولوی زادے نے بھی گستاخوں کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا ہے۔اس مولوی زادے نے ایمان مزاری کے انٹرویو پر ایسے یقین کر لیا ہے کہ جیسے موصوفہ رابعہ بصری ہوں،اب اگر وہ مولوی زادہ ’’ایمان‘‘پریقین کامل کر ہی چکا ہے تو اسے میرا چیلنج ہے کہ وہ صرف خود نہیں،بلکہ اپنے پیر و مرشد جاوید احمد غامدی کو بھی امریکہ سے بلاکر پاکستان لے آئے اور پھر پورے پاکستان میں اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کئے گئے تقریبا ًپانچ سو گستاخوں میں سے کسی ایک گستاخ کے خلاف بھی درج مقدمے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت بھی سامنے لے آئے تو یہ خاکسار بھی اس کے موقف کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ورنہ اسے چاہیے کہ وہ توبہ تائب ہو۔اس کے فیس بک وال پر گستاخوں کے سہولت کاروں کا جھوٹا بیانیہ نہیں بلکہ اس کے باپ دادا کے بیانات اچھے لگتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایمان مزاری کون ہے؟کیا ایمان مزاری گستاخ ملزمان کی وکالت نہیں کررہی؟اگر وہ گستاخوں کی وکالت کر رہی ہے تو کیا وہ یہ تسلیم کرے گی کہ ’’گستاخ‘‘واقعی گستاخ ہیں؟وہ تو اپنے کلائنٹس کا دفاع کرنے کے لئے جھوٹا یا سچا کوئی بھی بیانیہ بنائے گی۔اب یہ ثابت کس فورم پر ہو گا کہ جنہیں گستاخ کہا جارہا ہے،وہ واقعی گستاخ ہیں؟یا جن گستاخوں کو بے گناہ کہا جارہا ہے،وہ واقعی بے گناہ ہیں؟ یقینا اس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق عدالتی فورم پر ہو گا۔نہ تو فیس بک پر کسی مولوی زادے نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی یوٹیوبر نے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے جون 2021ء سے لے کر اب تک تقریباً پانچ سو گستاخ ملک بھر سے گرفتار کئے جاچکے ہیں۔جن میں سے 24گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹس سزائے موت سنا چکی ہیں۔دو گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔جنہیں سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لئے اپیلیں ہائیکورٹس میں زیر سماعت ہیں۔باقی تمام زیر حراست گستاخوں کے خلاف بھی مقدمات اس وقت انڈر ٹرائل ہیں۔ان کے فیصلے بھی جلد ہو جائیں گے۔مذکورہ حقائق تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ جن کے خلاف سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے ہیں،وہ واقعی گستاخ ہیں۔اسی لئے تو عدالتیں انہیں سزائیں سنا رہی ہیں۔عدالتیں ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے بغیر کسی دبا کے بالکل آزادانہ ماحول میں آئین و قانون کے مطابق میرٹ پر کررہی ہیں۔مذکورہ زیر حراست تقریبا ًپانچ سو گستاخ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت کسی ایک مقدمے کے حوالے سے یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ایک دن بھی ٹرائل کے دوران عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے لئے ’’جتھے‘‘ لائے گئے ہوں۔صرف مدعی،مدعی مقدمہ کا وکیل اور گواہ ہی عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔کوئی ایک ایسا غیر متعلقہ شخص عدالت میں نہیں لایا جاتا کہ جس کا مقدمے سے تعلق نہ ہو۔اب تک عدالتوں کی جانب سے گستاخوں کو سزائیں سنانا اور کسی ایک گستاخ ملزم کا بھی مقدمے سے بری نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام مقدمات بالکل درست ہیں۔گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے گستاخوں کے سہولت کاروں کی جانب سے جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو اس کے متعلق ثبوت عدالتوں کے سامنے لائے جاتے اور ان ثبوتوں کی بنیاد پر یقینا عدالتیں ملزمان کو ریلیف بھی دیتیں۔اس لئے کہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی کریمنل مقدمے میں ذرہ سا شک کا فائدہ بھی ہمیشہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے۔
گستاخوں کے سہولت کار بالخصوص ایمان مزاری جو پروپیگنڈہ کررہی ہے،اسے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت تو سامنے لائے۔صرف کسی پر الزام لگا دینا ہی تو کافی نہیں۔ایمان مزاری گوجرانوالہ کے ایک مولوی زادے کے لئے تو شائد رابعہ بصری ہو کہ وہ محض اس کے الزام کو ہی درست مان کر اس پر ایمان لے آئے۔مگر قوم ثبوت چاہتی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ بعض افراد پر توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کا غلط اندراج کرانے یا توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میلنگ کرنے کے بے بنیاد الزامات لگا کر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے گستاخوں کو تحفظ دیا جائے۔یہ خاکسار اس حوالے سے بالکل کلیئر ہے کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے کسی ایک گستاخ کو بھی قانونی سزا سے نہیں بچنا چاہئیے۔مزید یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پر توہین مذہب و توہین رسالت کا جھوٹا الزام عائد کرتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے ارتکاب پر اکساتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میل کرتا ہے تو اسے بھی قانون کے مطابق سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔مگر اس حوالے سے محض زبانی الزامات کافی نہیں بلکہ ثبوت کا ہونا ضروری ہے اور اب تک زیر حراست گستاخوں کے خلاف تو ثبوت ہیں مگر اس کے برعکس کوئی ثبوت نہیں۔صرف الزامات ہی ہیں اور صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم یا بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری بات کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف مقدمات کا اندراج (پیکا) جسے سادہ لفظوں میں انسداد سائبر کرائم ایکٹ کہا جاسکتا ہے،کے تحت کیا جارہا ہے۔ پیکا کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں درج مقدمات میں زبانی شہادتیں نہیں بلکہ ’’ڈیجیٹل شواہد‘‘کی اہمیت ہوتی ہے۔ان مقدمات میں سب سے اہم ثبوت ملزم سے برآمد ہونے والا اس کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہوتا ہے۔ملزم کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مجرم ہے یا بے گناہ؟سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث جن زیر حراست مجرمان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،ان کے موبائل فون وغیرہ ایف آئی اے کے قبضے میں ہیں۔ان موبائل فون وغیرہ کے فرانزک رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جو انہیں مجرم ثابت کرتی ہیں۔گستاخوں کے تمام سہولت کاروں بشمول گوجرانوالہ کے مولوی زادے کو چیلنج ہے کہ وہ کسی ایک انڈر ٹرائل گستاخ کے مقدمے کو بطور مثال پیش کر دیں کہ اس کے خلاف مقدمہ غلط درج کیا گیا ہے،تو اس سے برآمد ہونے والے موبائل فون وغیرہ کا ان کی مرضی کے لیب سے دوبارہ فرانزک کروا لیا جائے۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔اس میں کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس تو ہے نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: توہین مذہب و توہین رسالت کے گستاخوں کے خلاف قانون کے مطابق گستاخ ملزمان ایمان مزاری کی بنیاد پر کرنے کے لئے گستاخ ملزم گستاخوں کو کی جانب سے ایف آئی اے نہیں بلکہ جارہا ہے کرتا ہے کسی ایک بے گناہ

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا



اسلام آباد:

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان نے کیس کی سماعت کی جس میں راؤ عبد الرحیم کی جانب سے وکیل کامران مرتضیٰ و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس خادم حسین سومرو نے استفسار کیا کہ اس فیصلے سے آپ متاثرہ کیسے ہیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہمیں مکمل حق سماعت نہیں دیا گیا ۔ 400 کیسز ہیں اور کچھ کیسز اس کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ کیا اس کیس میں کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے؟

وکیل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ عدالت میں یہ کیس نمٹایا گیا تھا پھر تحریری فیصلہ آیا کہ کیس زیر التوا رہے گا کیا کسی اور کی طرف سے رِٹ پٹیشن قابل سماعت ہو سکتی ہے؟

کامران مرتضیٰ نے عدالت نے اپنا مؤقف بتاتے ہوئے مزید کہا کہ بے شک بھائی بیٹا یا باپ ہو ان میں سے کوئی بھی ہو متاثرہ فریق کیسے ہے ؟ آرڈر ایسے کر رہے ہیں جیسے سپریم کورٹ سے بھی اوپر کی عدالت ہے۔

جسٹس اعظم خان نے استفسار کیا کہ فائنل آرڈر کے بعد کیا کیس زیر التوا رکھ سکتے ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعدازاں عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا، عدالت نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • گستاخ اہل بیت مولوی عطا اللہ بندیالوی گرفتار
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا سے میجر جنرل سید زادہ بابو جان عبدالقادرکی ملاقات
  • یقین دلاتا ہوں ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوں گا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا
  • تکفیر و توہین سے اُمت کمزور ہو رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے: سپریم کورٹ