ایک بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست نہیں ملتی، اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہر باشعور مسلمان کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کی ریاست ظلم، نسل کشی، اور بربریت کی علامت بن چکی ہے، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ سید باقر عباس زیدی نے اسرائیل و فلسطین تنازعے پر حالیہ جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل وہ ملک ہے جس نے دنیا میں سب سے زیادہ بین الاقوامی معاہدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، اس کی تاریخ دھوکے، مکاری اور جبر سے بھری پڑی ہے، اس لیے موجودہ جنگ بندی معاہدہ بھی اسرائیل کی ایک سیاسی چال اور وقتی حربہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے، اس معاہدے میں بطورِ ضامن شامل ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کریں اور فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی و قومی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو فراموش کر دیں یا اپنی جدوجہد کو روک دیں، فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تحفظ امتِ مسلمہ کے ایمان، غیرت اور وقار کا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست نہیں ملتی، اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہر باشعور مسلمان کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کی ریاست ظلم، نسل کشی، اور بربریت کی علامت بن چکی ہے، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے، جو قوتیں انسانی حقوق کی علمبردار بنتی ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں، نہ کہ ظالم کو مزید سہولتیں دیں۔انہوں نے اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین کے مستقل اور منصفانہ حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانا صرف سیاسی عمل نہیں بلکہ عبادت اور ایمان کا تقاضا ہے، امتِ مسلمہ کو چاہیئے کہ وہ متحد ہوکر مظلوموں کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرے اور ظالم طاقتوں کے خلاف پرامن مگر مضبوط مزاحمتی موقف برقرار رکھے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطین کے

پڑھیں:

اِک واری فیر

اِک واری فیر WhatsAppFacebookTwitter 0 19 October, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


تاریخ جب اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ایک دردناک تسلسل کے ساتھ دہراتی ہے۔ حال ہی میں شرم الشیخ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ بظاہر ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر یہ معاہدہ سوالات زیادہ پیدا کرتا ہے اور جوابات کم دیتا ہے۔ دنیا کے کئی رہنماؤں، بشمول امریکی صدر کی شرکت نے اس اجلاس کو بظاہر ایک عالمی وقار عطا کیا، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی غیر موجودگی نے اس تقریب کے اصل مقصد یعنی اتحاد کے مظاہرے پر گہرا سایہ ڈال دیا۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں اشارے اکثر الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، اور ایسی میز پر خالی کرسی ہزار دستخطوں سے زیادہ بولتی ہے۔


اس معاہدے کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ماضی کے دریچوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ تاریخ میں بے شمار امن معاہدوں سے مزین ہے—کیمپ ڈیوڈ، اوسلو، وائے ریور، انیپولس—جن سب میں امید کی زبان استعمال کی گئی مگر انجام ہمیشہ بداعتمادی، تشدد اور سیاسی مفادات کے طوفان میں ہوا۔ ہر معاہدہ تالیوں اور توقعات کے شور میں شروع ہوا، مگر جلد ہی خون اور مایوسی میں ڈوب گیا۔ اس لحاظ سے شرم الشیخ کا امن معاہدہ کوئی نیا باب نہیں، بلکہ ٹوٹی ہوئی وعدوں کی ایک طویل نظم کا ایک اور بند ہے۔


اصل سوال یہ ہے کہ ایسے معاہدوں کی حیثیت آخر کیا ہے؟ امن معاہدہ صرف دستخطوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اعتماد کا عہد ہوتا ہے۔ اگر اس میں خلوص، احترام اور نیت کی پختگی شامل نہ ہو تو وہ کاغذ اور سیاہی سے زیادہ کچھ نہیں رہتا۔ جب تک کسی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح ضمانتیں اور مؤثر نظام موجود نہ ہو، دشمنی کے بوجھ تلے دبے فریقوں کے درمیان امن کی کوئی ضمانت ممکن نہیں ہوتی۔ اگر کوئی فریق خلاف ورزی کرے تو جواب دہ کون ہوگا؟ بین الاقوامی برادری اجلاس بلائے گی، بیانات جاری کرے گی، مگر دنیا جانتی ہے کہ قراردادیں کسی قوم کی خواہش یا خوف کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔


طاقتور ممالک کی موجودگی یقیناً معاہدے کو سفارتی جواز بخشتی ہے، مگر اخلاقی جواز صرف انصاف اور سچائی سے حاصل ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر ایک فریق ظلم، جبر یا اشتعال انگیزی جاری رکھے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان طاقت کا عدم توازن ہمیشہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ طاقتور فریق مذاکرات کو اپنی مرضی سے موڑتا ہے، جبکہ کمزور فریق ضرورت کے تحت بات چیت کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں امن شراکت نہیں بلکہ رعایت بن جاتا ہے۔ جب تک نیتوں میں برابری اور دکھوں کی باہمی پہچان نہ ہو، امن محض ایک سراب رہتا ہے۔


نیتن یاہو کی غیر حاضری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا یہ سیاسی حکمتِ عملی تھی تاکہ اندرونی مخالفت سے بچا جا سکے، یا یہ اسرائیل کی اس ہچکچاہٹ کی علامت ہے جو ہمیشہ حقیقی مصالحت کے راستے میں حائل رہی ہے؟ اصل امن صرف دستخط کرنے سے نہیں بلکہ طاقت کے کچھ اختیارات ترک کرنے سے، قبضے کے ڈھانچے کو توڑنے سے، اور انسانیت کا ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہوتا ہے، چاہے بیاعتمادی باقی کیوں نہ ہو۔


تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ انصاف کے بغیر امن محض وقفہ ہوتا ہے، انجام نہیں۔ فلسطینی مسئلہ صرف سرحدوں کا نہیں، بلکہ وقار، ریاستی حیثیت اور بقا کا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی معاہدہ جو ان بنیادی نکات کو نظر انداز کرے، دراصل ایک ایسی جنگ بندی ہے جس کی مدت پہلے ہی طے شدہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک فریق کو مکمل آزادی حاصل رہے اور دوسرا پابندیوں میں جکڑا رہے تو ایسا امن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ماضی کا سبق واضح ہے؛ جب امن مسلط کیا جاتا ہے، پروان نہیں چڑھتا، تو وہ اندر سے بگڑ جاتا ہے۔


فلسفیانہ اعتبار سے امن کوئی واقعہ نہیں بلکہ تبدیلی کا ایک عمل ہے۔ یہ محض سیاسی دستخط نہیں بلکہ اخلاقی بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ قوموں کو فتح و شکست کے تصور سے اوپر اٹھ کر بقائے باہمی کو اپنانا ہوگا۔ اگر شرم الشیخ کا امن معاہدہ واقعی کوئی معنی رکھتا ہے تو وہ تب ہی ممکن ہے جب وہ دلوں کو بھی بدلے، صرف پالیسیوں کو نہیں۔ غزہ اور تل ابیب کے بچے اپنے والدین کی تلخی نہیں بلکہ دوستی کی امید وراثت میں پائیں۔ مگر ایسی تبدیلی کسی قانون سے نہیں لائی جا سکتی؛ یہ عدل، ہمدردی اور ماضی کی غلطیوں کے اعتراف سے پروان چڑھتی ہے۔
علمی لحاظ سے اسے غیر متوازن مذاکرات اور نفاذ کے نظریے کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب کوئی مضبوط ضمانتی فریق یا قابلِ عمل ثالثی نظام موجود نہ ہو، تو معاہدوں کی پابندی کی تحریک وقت کے ساتھ کمزور ہو جاتی ہے۔ اگر معاہدہ دانتوں سے خالی ہے تو خلاف ورزی پر کاٹ نہیں سکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اسرائیل آبادیاں بڑھاتا ہے یا فوجی کارروائیاں کرتا ہے، تو عالمی طاقتیں محض”گہری تشویش”کا اظہار کرتی ہیں۔ اسی طرح جب فلسطین کے اندر انتہا پسند عناصر جوابی کارروائی کرتے ہیں تو وہ بھی اسی امن کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ان کے عوام آرزو رکھتے ہیں۔ یوں ناکامی صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ دنیا کی خاموشی، چنیدہ غصہ اور وقتی توجہ سب نے مل کر جوابدہی کے تصور کو کمزور کیا ہے۔


اخلاقی لحاظ سے امن دونوں طرف سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنی حفاظتی دیواروں سے آگے دیکھنا ہوگا، اور فلسطین کو مایوسی سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ دنیا کو بھی انصاف کو صرف تقریروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی امن کی ضامن بننا چاہتی ہے تو اسے خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ضمانتیں الفاظ میں نہیں، حقیقت میں نظر آنی چاہئیں۔


اور یوں جب ایک اور معاہدے پر سیاہی خشک ہو چکی ہے، دنیا ایک بار پھر دیکھ رہی ہے—نصف امید میں، نصف شک میں۔ شرم الشیخ، جو کبھی سکون اور سفارت کا استعارہ تھا، شاید ایک بار پھر امید سے مایوسی کی طرف بڑھتے ہوئے منظر کا گواہ بنے۔ مگر شاید اسی تکرار میں بیداری کی ایک کرن پوشیدہ ہو—کہ امن دیا نہیں جا سکتا، اسے سچائی، انصاف اور انسانی حرمت کے احترام سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔


اگر اس معاہدے کے معماروں نے واقعی تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے، تو شاید اس بار امن قائم رہے—نہ اس لیے کہ اسے شان و شوکت سے دستخط کیا گیا، بلکہ اس لیے کہ اسے خلوصِ نیت سے نافذ کیا گیا۔ ورنہ یہ بھی ٹوٹے وعدوں کے انبار میں شامل ہو جائے گا، اور ایک بار پھر یاد دلائے گا کہ امن کی جستجو میں الفاظ تو بہت ہیں، مگر جرات بہت کم۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دیں گے، نواز شریف دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل جنگ ہار چکا، غزہ و فلسطین کے مجاہدین جیت چکے ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • ناک اونچی ہونی چاہیے یا ایمان
  • ہم اسرائیل کیساتھ امن معاہدے کے خواہاں نہیں، بیروت
  • مودی کے دور حکومت میں عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جارہی ہے، کانگریس
  • صوبے میں کوئی سیاسی مقدمہ یا تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری نہیں ہوگی، سہیل آفریدی
  • ابراہیم معاہدہ یا اسرائیل کی تسلیم: ہماری ریڈ لائن
  • اِک واری فیر
  • امن معاہدے کے اثرات
  • بدلتی ہوئی عرب دنیا، مسلم ممالک