حماس نے ایک اور اسرائیلی یرغمالی کی لاش ریڈ کراس کے ذریعے واپس کردی
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک اور اسرائیلی یرغمالی کی لاش انسانی بنیادوں پر ریڈ کراس کے حوالے کردی ہے، جسے بعد ازاں اسرائیلی حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق یرغمالی کی لاش واپس کرنے کی کارروائی غزہ میں انجام دی گئی، جہاں ریڈ کراس کے نمائندوں نے لاش وصول کرنے کے بعد اسے اسرائیلی فوج کے حوالے کیا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوجی ترجمان کے مطابق یہ لاش پولیس کی نگرانی میں تل ابیب کے ابو کبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ منتقل کردی گئی ہے، جہاں شناخت کا عمل کم از کم 2 دن تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی جانب سے اب تک مجموعی طور پر 13 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کو واپس کی جاچکی ہیں، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ تنظیم کے پاس تاحال 15 مزید یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔ صہیونی حکومت نے حماس کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ ان تمام لاشوں کو فوری طور پر واپس کرے تاکہ ان کے اہلِ خانہ کو تدفین کا موقع مل سکے۔
میڈیا ذرائع میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور حملوں کے باعث ریڈ کراس کے ذریعے اس طرح کی کارروائیاں انتہائی خطرناک اور پیچیدہ ہوچکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل کے وحشیانہ فضائی حملوں نے غزہ کے شہریوں کے ساتھ ساتھ ان یرغمالیوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا جو حماس کی تحویل میں تھے۔
چند روز قبل ایک غیر ملکی میڈیا رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ حماس کی قید کے دوران جو اسرائیلی یرغمالی ہلاک ہوئے، ان کی بڑی تعداد دراصل اسرائیلی فوج کے انہی فضائی حملوں میں مارے جانے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال نے نہ صرف غزہ میں انسانی المیہ پیدا کیا بلکہ اپنے ہی شہریوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
دوسری جانب فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے لاشوں کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ تنظیم انسانی بنیادوں پر تعاون کی خواہاں ہے، مگر اسرائیلی جارحیت اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریڈ کراس کے کے مطابق حماس کی کی لاش
پڑھیں:
غربت، پابندیاں اور سفاک حکمرانی، طالبان کی پالیسیوں نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا
افغانستان میں طالبان حکمرانی کے تحت انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر افغان اور بین الاقوامی اداروں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سخت مالی پابندیوں، محدود آزادیوں اور معاشی پالیسیوں کی ناکامی نے لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو متاثر کر دیا ہے، جبکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق ملک میں بے روزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات نے ہزاروں خاندانوں کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ کم آمدنی، مہنگائی اور روزگار کے محدود مواقع کے باعث نوجوان تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں، جبکہ بہت سے افراد معمولی تنخواہوں کے باوجود اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔
ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرمایہ کاری اور معاشی بحالی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی استحکام اور قابل انتظام حکومتی ڈھانچہ قائم نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق طالبان کی نااہلی اور غیر واضح پالیسیوں نے ملکی معیشت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور معاشرتی عدم استحکام نوجوانوں میں ذہنی دباؤ اور خودکشی کے رجحانات میں خطرناک اضافہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سینٹر فار سیویلیئنز ان کانفلکٹ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں شہریوں کی حفاظت کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، جہاں بنیادی سیکیورٹی اور انسانی آزادیوں کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
خواتین پر سخت پابندیوں، تعلیم اور روزگار کے مواقع کے خاتمے اور سفاک طرزِ حکمرانی نے افغانستان کو شدید معاشی اور سماجی بحران میں مبتلا کر دیا ہے، جس کا بوجھ براہِ راست عام شہریوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔