نرگس کی مکہ مکرمہ میں مولانا طارق جمیل سے ملاقات؛ دعا کریں بار بار اللہ کے گھر آؤں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
ماضی کی معروف اسٹیج رقاصہ اور اداکارہ نرگس نے اپنے بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی تمام خواتین کو اپنے ہمراہ عمرہ کروایا۔
نرگس نے نیکی کے اس سفر کے دورام ممتاز اسلامی اسکالر مولانا طارق جمیل سے بھی مکہ مکرمہ میں ملاقات کی۔
اداکارہ نرگس کی زندگی میں تبدیلی اور مذہب کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان میں مولانا طارق جمیل کا اہم کردار رہا ہے۔
انسٹاگرام پر نرگس نے مولانا طارق جمیل سے ہونے والی ملاقات کی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں وہ برقع پہنے ہوئے ہیں اور بالکل ایک الگ شخصیت نظر آ رہی ہیں۔
اس ویڈیو میں نرگس نے بتایا کہ میری خوش قسمتی تھی جب میں نے اپنا پہلا حج 2006 میں مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ کیا تھا۔
A post common by Ghazala Idrees (@nargisjiofficial)
نرگس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ آج کافی عرصے کے بعد دوبارہ طارق جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔
نرگس کے بقول انھوں نے مولانا طارق جمیل کا بیان سنا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے، جسے میں اپنی عملی زندگی کا حصہ بناؤں گی۔
اس موقع پر اداکارہ نرگس نے مولانا طارق جمیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور مذہب سے روشناس کرایا۔
اداکارہ نے مولانا طارق جمیل سے درخواست کی کہ آپ میرے لیے، میری اولاد اور میرے شوہر کے لیے خاص دعا کر دیں۔
جس پر مولانا صاحب نے دعا کرائی اور ساتھ نرگس سے کہا کہ آپ نے اپنے بیوٹی پارلر کے عملے کو حج اور عمرہ کروایا ہے۔ یہ بہت نیک کام کیا ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ میں دعاگو ہوں کہ اللہ آپ کو دین پر چلنے کی مزید استقامت اور توفیق دے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: مولانا طارق جمیل سے
پڑھیں:
امریکی نظام کو بے نقاب کرتے جناب ٹرمپ صاحب
اسلام ٹائمز: متشدد صہیونی وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے ٹویٹر پر لکھا: "میں وزیرِاعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اسرائیلی افواج کو حکم دیں کہ وہ غزہ کی پٹی میں زیادہ سے زیادہ طاقت کے ساتھ لڑائی دوبارہ شروع کرے۔" امریکی و اسرائیلی عہدیدار جنگ بندی کروا کر اسرائیلی قیدی رہا کروانا چاہتے تھے، وہ کروا چکے ہیں۔ اب وہ گرنٹر کہاں ہیں، جو بار بار حماس کو کہہ رہے تھے کہ آپ قبول کر لیں، جنگ بندی کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔؟ ہمیں تو خیر پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یہ کبھی بھی جنگ بندی کو قبول نہیں کریں گے۔ معروف پاکستانی صحافی جناب حامد میر صاحب نے درست لکھا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ کئی عالمی رہنماؤں نے جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن دراصل کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
امریکہ میں بڑے پیمانے میں مظاہرے جاری ہیں اور ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لوگ ٹرمپ کی پالیسیوں سے پہلے تنگ تھے، اب یوں لگ رہا ہے کہ امریکی عوام دلبرداشتہ ہوچکی ہے۔ امریکہ کے اندر جس طرح سے لوگوں کو غیر ملکی تارکین وطن قرار دے کر ذلیل کیا جا رہا ہے، امریکی معاشرے نے اسے بالکل پسند نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثر امریکی تارکین وطن ہیں یا ان کی اولادیں ہیں۔ اس لیے جب تارکین وطن کے خلاف اقدامات کی انسانیت سوز ویڈیوز آتی ہیں تو اجتماعی دکھ کے طور پر دیکھی جاتی ہیں۔ لوگ حکومتوں کے خلاف ہو جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں مظاہرے کرتے ہیں، حکومتیں لوگوں کی آواز سنتی ہیں اور اپنی سمت درست کرتی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور اپنی کسی بھی پالیسی پر تنقید کو ذاتی تنقید سمجھ کر بہت پرسنل ہو کر جواب دیتے ہیں۔ ابھی انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں وہ خود ایک جہاز اڑا رہے ہیں اور مظاہرین کے اوپر پہنچ کر گندگی کو ان پر گرا دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس قدر مسخرا پن، وہ بھی امریکی مظاہرین کے ساتھ؟؟!!
ویسے ٹرمپ نے امریکی نظام کو صحیح بے نقاب کیا ہے، جیسے موصوف خود ہیں، ان کی انتظامیہ بھی ویسی ہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے بوڈاپسٹ میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات کا اعلان کرنے کے بعد HuffPost کے صحافیوں نے وائٹ ہاؤس سے ایک منطقی سوال کیا کہ کہ آخر کیوں ہنگری کے دارالحکومت کو مذاکرات کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ہنگری کا دارالحکومت بوڈاپیسٹ یوکرین کے لیے علامتی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہیں پر 1994ء میں اُس میمورنڈم پر دستخط کیے گئے تھے، جس کے مطابق یوکرین نے روس، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حفاظتی ضمانتوں کے بدلے جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ تاہم، روس نے 2014ء میں کریمیا پر قبضہ کرکے اور 2022ء میں مکمل پیمانے پر حملہ کرکے اِن ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی۔
اِس جگہ کی اِتنی تاریخی حساسیت کے باوجود وائٹ ہاؤس کا سرکاری ردِعمل غیر متوقع نکلا، جب ہف پوسٹ نے پوچھا کہ بوڈاپیسٹ میں میٹنگ رکھنے کی تجویز کس نے دی تھی، تو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے صحافی کو جواب دیا: "تیری ماں نے۔" کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ کسی سفارتی اہلکار کی زبان ہے۔؟ سفارتکار کی تو تربیت ہی ایسے کی ہوتی ہے کہ وہ گالی دینے کی جگہ پر بھی ایسے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے کہ بات بھی پہنچ جاتی ہے اور بازاری زبان بھی استعمال نہیں ہوتی۔ ویسے امریکی صدر جناب ٹرمپ صاحب صدارتی انتخابات میں دعویٰ فرمایا کرتے تھے کہ روس، یوکرین جنگ بندی تو بس ایک فون کال کی مار ہے اور بس چوبیس گھنٹوں میں جنگ روک دی جائے گی۔ مگر اب تک نہ صرف جنگ جاری ہے بلکہ امریکی اتحادیوں کو امریکہ کے اصل چہرے کا پتہ چل رہا ہے۔
بڑی کوشش کرکے غزہ میں اپنی سرپرستی میں جاری جنگ رکوائی گئی اور اس کا بڑا کریڈت بھی لیا گیا، گویا ہم انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ ویسے ان کا وعدہ ہی کیا؟ جو وفا ہو جائے۔ غزہ کی عوام پر حملے کل سے دوبارہ شروع ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے 80 سے زائد مقامات پر 100 زائد میزائل گرائے۔ اس اسرائیلی بمباری سے غزہ کے 33 شہری شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ اسرائیل نے غزہ امدادی سامان کے تمام راستے بھی بند کر دیئے۔ غزہ رفح میں زیر زمین بارودی بم سے اسرائیلی فوجی گاڑی ٹکرا گئی، 2 فوجی ہلاک 5 زخمی ہوگئے ہیں۔ کیا یہی وہ جنگ بندی تھی، جس کے لیے سارا امریکی و یورپی میڈیا چیخ رہا تھا۔؟ آج اسرائیل نے اس جنگ بندی کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔
متشدد صہیونی وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے ٹویٹر پر لکھا: "میں وزیرِاعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اسرائیلی افواج کو حکم دیں کہ وہ غزہ کی پٹی میں زیادہ سے زیادہ طاقت کے ساتھ لڑائی دوبارہ شروع کرے۔" امریکی و اسرائیلی عہدیدار جنگ بندی کروا کر اسرائیلی قیدی رہا کروانا چاہتے تھے، وہ کروا چکے ہیں۔ اب وہ گرنٹر کہاں ہیں، جو بار بار حماس کو کہہ رہے تھے کہ آپ قبول کر لیں، جنگ بندی کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔؟ ہمیں تو خیر پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یہ کبھی بھی جنگ بندی کو قبول نہیں کریں گے۔ معروف پاکستانی صحافی جناب حامد میر صاحب نے درست لکھا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ کئی عالمی رہنماؤں نے جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن دراصل کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔
امریکی صدر کے نمائندے کا بیان دیکھ رہا تھا کہ جب قطر پر حملہ ہوا تو مجھے لگا یہ تو ایک دھوکے جیسا ہے۔ ویسے تعجب ہے کہ موصوف کو فقط یہ محسوس ہوا ہے کہ دھوکے جیسا ہے۔ شائد یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ان کا حملہ ناکام ہوگیا، اگر خدانخواستہ یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو یہ کہتے کہ یہ دھوکہ ہے۔ اصل دھوکہ اسرائیل نے نہیں، آپ نے کیا تھا۔ قطر کی دفاعی ذمہ داری آپ پر ہے اور اس پر بیرونی حملہ ہوا ہے۔ ویسے یہ بھی کیا پتہ کہ اسرائیل نے قبول کیا ہو اور جیسا کہ رپورٹس میں آیا تھا کہ دوحا سے بلند ہونے والے جہازوں نے اسرائیلی جہازوں کو تیل فراہم کیا تھا، یہ حملہ بھی سارے کا سارا قطر کے اندر سے ہی کیا گیا ہو۔؟؟؟