Express News:
2025-07-26@08:59:49 GMT

دریائے سندھ: ترقی یا تباہی؟ فیصلہ ہمارا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

دریائے سندھ ہماری زمین کا وہ جیتا جاگتا حصہ ہے جو ہزاروں برس سے زندگی کو اپنے سینے سے لگا رہا ہے۔ یہ صرف پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے جو ماضی کی گہرائیوں سے لے کر آج تک ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ ہم اسے سندھ کی شریان کہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر اس سرزمین کا وجود ہی ممکن نہیں۔ یہ دریا ہمیں زراعت، روزگار، رہن سہن اور تہذیبی ورثے کی گہری بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن افسوس، آج ہم خود اپنے اس دریا کی اہمیت کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

دریائے سندھ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ دریا ہماری تہذیب کی جڑوں میں بسا ہوا ہے۔ 5,000 سال پہلے، انڈس ویلی سویلائزیشن کا مرکز بھی اس دریا کے کنارے پر تھا۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے تاریخی شہر دریائے سندھ کے پانیوں کے قریب آباد تھے۔

 ان کے درمیان تجارت، زراعت اور فنون کا ایک مضبوط رشتہ تھا، اور یہ سب کچھ دریائے سندھ کی فیاضی سے ممکن تھا۔ اس دریا کا پانی سندھ کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا اور یہاں کی معاشرت کو خوشحال بناتا تھا۔ آج بھی، یہ دریا سندھ کے کسانوں کی زندگی کا حصہ ہے، جن کی فصلیں اس کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔

آج کل حکومت کے کچھ منصوبے اس دریا کے وجود کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان منصوبوں میں چھ نئی نہریں بنانے کی بات ہو رہی ہے جوکارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ یہ نہریں نکالنے کا مطلب ہے دریائے سندھ کے پانی کو مخصوص علاقوں کی طرف موڑ دینا اور وہاں کی زمینوں کو زرخیزکرنا۔ بظاہر یہ منصوبہ اچھا لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی حقیقت انتہائی خوفناک ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبے مقامی لوگوں کی مرضی سے بن رہے ہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہے۔ سندھ کے لوگ ہمیشہ سے اپنے دریا سے جڑے رہے ہیں۔ یہ ان کی زمین، ان کی زندگی اور ان کی تہذیب کا حصہ ہے، اگرکسی بھی ترقیاتی منصوبے میں ان کی رائے شامل نہ ہو، تو اسے ترقی کا نام دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ سندھ کے لوگ کئی دہائیوں سے ان نہروں کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ نہریں کس طرح زمینوں کو بنجر اور قدرتی وسائل کو ضایع کرتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایک زمین کو بنجر کر کے دوسری زمین کو زرخیز بنانا کوئی سمجھداری نہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک ہاتھ کاٹ کر دوسرے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے۔ دریائے سندھ کا پانی پورے سندھ کے لیے ایک جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ پانی نہ صرف زمینوں کو زرخیز بناتا ہے بلکہ اس کے کنارے رہنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگی کا سہارا ہے۔

اگر اس پانی کو مخصوص نہروں کے ذریعے کہیں اور موڑ دیا جائے تو کیا ان لوگوں کی زندگیوں کا کوئی حساب کتاب ہوگا؟ اس سوال کا جواب نہ صرف سندھ کے کسانوں بلکہ پورے پاکستان کے شہریوں کو دینا ہوگا۔

حکومت کے اس منصوبے پر ابھی عملدرآمد نہیں ہوا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ منصوبے حقیقت بن گئے تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ دریائے سندھ پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے۔ ہندوستان کی جانب سے دریاؤں پر بند باندھنے کے بعد پاکستان کو ملنے والا پانی پہلے ہی کم ہوچکا ہے۔ ایسے میں مزید نہریں نکالنے کا مطلب ہوگا کہ سندھ کی زمینیں مزید بنجر ہو جائیں گی اور پانی کے لیے ترسنے لگیں گی۔

پانی کی کمی کا اثر نہ صرف زراعت پر بلکہ ماحولیاتی نظام پر بھی ہوگا۔ سندھ کے لوگ، جو پہلے ہی پانی کی قلت سے نبرد آزما ہیں، مزید مسائل کا شکار ہونگے اور اگر یہ منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو قدرتی وسائل کا استحصال اور مقامی لوگوں کا استحصال دونوں ایک ساتھ ہونگے۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دریا صرف پانی کی روانی کا نام نہیں، بلکہ یہ زمین کی زندگی ہے۔ جب دریا کو نقصان پہنچتا ہے تو پورا علاقہ اس کے اثرات جھیلتا ہے۔ جنگلی حیات، ماحول، زمین اور لوگوں کی روزمرہ زندگی سب کچھ متاثر ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دریا قدرت کا وہ تحفہ ہے جو ہمیں زندگی فراہم کرتا ہے اور ہم اسے خود تباہ کرنے جا رہے ہیں۔

سندھ کے لوگ اس وقت اپنی تہذیب اور وسائل کو بچانے کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انھیں اس فیصلے میں شامل کیا جائے، کیونکہ یہ ان کی زمین، ان کی روزی روٹی اور ان کی زندگی کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ ایک زمین کو بنجر کر کے دوسری زمین کو زرخیز کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔‘‘

بین الاقوامی سطح پر بھی دریائی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے نیل اور گنگا کے درمیان معاہدے، جنھیں بین الاقوامی سطح پر متوازن پانی کے استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی نظریہ ہمیں بھی اپنانا چاہیے کہ دریاؤں کے پانی کا استعمال کسی بھی علاقے کی اجتماعی بھلائی کے  لیے ہونا چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی آواز سنے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد سے پہلے عوامی مشاورت کو یقینی بنائے،کیونکہ کسی بھی علاقے میں ترقیاتی منصوبے وہاں کے لوگوں کی مرضی کے بغیر نہ توکامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دیرپا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قدرتی وسائل کی حفاظت ہی اصل ترقی ہے۔

دریائے سندھ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس کی خاموش آوازکو سننے کی ضرورت ہے۔ یہ دریا ہم سب کا ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آئیں، اس کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قدم اٹھائیں، تاکہ یہ دریا آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسی طرح زندگی کا ذریعہ بنا رہے جیسا کہ یہ صدیوں سے ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں۔ ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کی بربادی کا سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ اگر ہم نے آج اپنے دریاؤں کو نہ بچایا تو کل ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ آج سندھ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔  یہ صرف ان کی نہیں، بلکہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور قدرتی وسائل کا تحفظ کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دریائے سندھ قدرتی وسائل سندھ کے لوگ زمینوں کو ا رہے ہیں زندگی کا کی زندگی لوگوں کی کے لیے ا کے پانی سندھ کی یہ دریا اس دریا پانی کی زمین کو کی زمین حصہ ہے

پڑھیں:

غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ

غزہ میں 2 سالوں سے جاری جنگ کی وجہ سے علاقہ شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہوگیا ہے جس کے اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوتے رہیں گے۔

بلومبرگ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے نتیجے میں غزہ ایک شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ شہر کے اہم بازار ‘سوق فراس’ سمیت 350 سے زائد مقامات اب غیر رسمی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بن چکے ہیں جہاں تقریباً 2 لاکھ میٹرک ٹن کچرا جمع ہو چکا ہے۔ ان میں سے اکثر مقامات پناہ گزینوں کے خیموں کے قریب ہیں جس سے صحت عامہ کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

رپورٹ میں سیٹلائٹ امیجری کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے کہ غزہ کے پانی، زمین اور ہوا کو زہریلے مادّوں سے آلودہ کیا جا چکا ہے۔ کوڑے کے انباروں سے نکلنے والے مضر مادے زیرزمین پانی کو متاثر کر رہے ہیں جو غزہ کی واحد پانی کی سپلائی کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ تباہ شدہ عمارتوں اور گولہ بارود سے نکلنے والی دھول اور دھوئیں نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 55 ملین میٹرک ٹن ملبہ غزہ میں موجود ہے جب کہ روزانہ 84 ہزار مکعب میٹر گندہ پانی بحیرہ روم میں بہایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی ماحول بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔

رپورٹ میں غزہ کے ماہر ماحولیات باسل یاسین کا کہنا ہے کہ جنگ نے نہ صرف ماحولیاتی نظام کو تباہ کیا بلکہ تحقیقاتی ادارے، تجربہ گاہیں اور ماہرین بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ پانی کی جانچ کا کوئی آلہ باقی نہیں رہا، اور نہ ہی یونیورسٹیاں فعال ہیں۔

یونیسف اور دیگر ادارے خیمہ بستیوں سے کچرا اکٹھا کرنے کے لیے مقامی افراد کو اجرت دے رہے ہیں، لیکن سہولتیں انتہائی ناکافی ہیں۔ شہری ایک وقت کے کھانے پر مجبور ہیں جب کہ وبائی امراض، جیسے ہیپاٹائٹس اے اور ڈائریا، تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

اس ماحولیاتی تباہی کے اثرات صرف غزہ تک محدود نہیں رہیں گے۔ اسرائیلی ہسپتالوں میں پہلے ہی دوائیں مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کا علاج کیا جا رہا ہے، اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پورے خطے میں صحت کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ غزہ کی مکمل بحالی پر کم از کم 53 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور یہ عمل ایک دہائی تک جاری رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آلودگی جنگ جنگ بندی غزہ ماحولیات

متعلقہ مضامین

  • دریائے سندھ: تونسہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب
  • تونسہ: دریائے سندھ میں درمیانے درجے کے سیلاب سے 20 سے زائد دیہات زیر آب
  • مختلف شہروں میں موسلادھار بارش نے تباہی مچا دی
  • کوہ سلیمان، پہاڑی علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی
  • راجن پور:کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقوں میں بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی
  • دریائے چناب میں مسلسل پانی کی سطح بلند، دریائی کٹاؤ میں بھی شدت آگئی
  •  دریائے چناب میں پانی کی سطح بلند, الرٹ جاری 
  • غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
  • میٹرک امتحان میں فیل ہونے پر طالبعلم نے بڑا قدم اٹھالیا
  • طالبعلم نے دریامیں چھلانگ لگادی،بچانے کیلئے بھائی بھی گودگیا