Express News:
2025-07-26@13:47:20 GMT

ریڈ کیفے کا مہدی

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

 جنرل ایوب نے جب اپنے جبر کے بل بوتے پر کراچی کی طلبہ تحریک کے اہم مورچے ناظم آباد کے ’’کیفے الحسن‘‘کی طلبہ سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ترقی پسند سوچ کے طلبہ نے صدر کے ’’کیفے جہان‘‘اور ناظم آباد کے ’’کیفے لارڈ‘‘ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ٹھکانہ بنالیا، جب طلبہ کی سرگرمیوں کو تمام تر ریاستی جبر کے باوجود نہ روکا جا سکا تو کیفے لارڈز کو ’’ریڈ کیفے‘‘ کے نام سے دوبارہ ترقی پسند دوستوں کی بیٹھک کے نام سے زندہ کیا گیا۔ریڈ کیفے کی رونقوں کی آبیاری میں ترقی پسند ادب اور اس کے تحریکی عمل میں پیش پیش اصغر مہدی نظمی ہی رہے۔

ہر جمعرات کو طے تھا کہ مہدی نظمی جھمپیر ڈملوٹی سے کراچی آئیں گے اور مجھ سمیت آرٹسٹ لیاقت حسین کی ذمے داری تھی کہ ہم دوستوں کی آمد کو یقینی بنائیں گے،جس میں ذکی عثمانی، ڈاکٹر مظہر حیدر، حسن عابد، محمد علی صدیقی،رضی مجتبیٰ، عزیز حامد مدنی، قمر جمیل، احمد ہمیش و دیگر دوست گاہے گاہے ریڈ کیفے کی سرگرمیوں کو آباد رکھیں گے، اس ذمے داری سے وہ کبھی غافل نہ رہے ، اس سب کے باوجود مجال جو مہدی نظمی نے اپنے وقت اور کراچی آمد پر کوئی سمجھوتا کیا ہو، مہدی نظمی کی سرکردگی میں ریڈ کیفے پر شام کو سجنے والی یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی اور یوں سب اپنی پھٹپھٹیا پر گھر کو سدھارتے۔

 جہاں ریڈ کیفے کی اس محفل میں ادبی محاسن پر گفتگو رہتی، وہیں سیاست میں در آنے والی تنگ نظری اور لسانیت پر کراچی کے سیاسی و تہذیبی ماحول کو برباد کرنے پر بھی کف افسوس ہوا کرتا تھا، اس محفل میں جلد جدا ہو جانے والے افسانہ نگار قمر عباس ندیم کی ادبی اور طلبہ سیاست اہم موضوع ہوا کرتی، مہدی نظمی کی استقامت نے ہمیشہ دوستوں کے حوصلوں کو جلا بخشی اور باہمت کیا، سفر کی تکان کے باوجود مہدی نظمی کی خوش دلی اور تازگی کبھی نہ مرجھائی نہ کبھی رات واپسی کے خوف نے مہدی نظمی کے پائے استقامت میں لغزش آنے دی اور ہر جمعرات کی یہ ادبی و سیاسی بیٹھک برسہا برس جاری رہی۔
 یہ وہ زمانہ تھا جب مہدی نظمی اپنے کنبے کے ساتھ بفرزون میں رہا کرتے تھے اور اپنے بڑے بیٹے وقار مہدی کے سیاسی طور سے متحرک ہونے پر نہ صرف مطمئن بلکہ فاخر بھی ہوتے تھے انھیں اطمینان تھا کہ کم از کم ان کا وقار سیاسی طور سے جمہوریت پسند اور ایک باشعور سیاسی طالبعلم تھا ، مہدی نظمی نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ کی تعلیم میں تشدد پسند ماحول پر ہمیشہ دل گرفتہ رہتے تھے تو دوسری جانب وہ وقار مہدی کی سیاسی و جمہوری فکر پر کسی حد تک مطمئن بھی تھے یہی وجہ رہی کہ مہدی نظمی کی عوام دوست اور مزدور دوست سوچ کے زیر اثر وقار نے ٹریڈ یونین سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور تمام طبقات سے رابطے میں رہنے کے علاوہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے جمہوریت پسند دوستوں کے ساتھ رابطوں میں رہنے کو ترجیح دی۔

مجھے کبھی کبھی وقار مہدی کی خاموش طبع طبیعت میں مہدی نظمی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں، مہدی نظمی نے ہمیشہ اپنی شاعری میں سماج کے المیوں اور انسانی آزادی کے ترقی پسند نظریے کا واضح اظہار کیا اور ہمیشہ آمرانہ ذہن کے سامنے شمشیر ننگ بنے رہے، مہدی نظمی کے مزاج اور خاموش طبعی کو یوں بیان کرنا زیادہ بہتر ہے کہ ’’جب مہدی نظمی کے مقابل کوئی پوری طرح کھلتا نہیں تھا وہ اس شخص سے گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ اگر محفل میں کسی نے درست اردو کی ادائیگی نہ کی تو سمجھئے کہ مہدی نظمی اس سے گفتگو نہیں کریں گے۔

 اپنی سوچ اور مزاج میں کھرے ہونے کی بنا پر ہم تین یعنی لیاقت حسین، مہدی نظمی اور میں ہر صورت ہر جمعرات ملتے اور ایک دوسرے سے ہر طرح کی گفتگو کرتے تھے،مہدی نظمی کی یاد میں اس کالم کے لکھنے کی بنیادی وجہ مہدی نظمی کی سخن ور روح کا ان کے پوتے سجاد مہدی میں حلول کر جانا ہے ،یعنی مہدی کا پورا کنبہ تہذیب و شائستگی کا نشان بنا ہوا ہے۔
 یہ جان کر میری خوشی دو چند ہو گئی کہ مہدی نظمی کے کلام اور نگارشات کا وارث سجاد کی سی صورت گھر ہی میں موجود ہے اور دادا کے تمام کلام کی کلیات مرتب کرنے کی تگ و دو میں جتا ہوا ہے، اب آپ بتائیے کہ ایسا پوتا دادی کا نازنین اور جنم دینے والی ماں کا جاں نثار ہی تو ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ تہذیب کے نشان کے طور سجاد باپ سمیت سب کا وقار بھی ہو.


چلتے چلتے یاد آیا کہ مہدی نظمی آمر ضیا کے شدید ناقد اور ضیا کی تنگ نظر مذہبی اور شدت پسند لسانی تقسیم کے ساتھ طلبہ سیاست پر پابندی کے شدید مخالف تھے،مہدی نظمی کا نکتہ نظر تھا کہ طلبہ سیاست ہی سماج میں درگزر، تہذیب و شائستگی کا ذریعہ ہوا کرتی ہے اور طلبہ سیاست پر پابندی دراصل سماج کی سیاسی اور سماجی پیش رفت کو روکنا ہے جس کے نتیجے میں سماج بانجھ ہو جاتا ہے اور طلبہ یونین پر پابندی کے بعد یہ ہوا کہ آج تک سماج کی قدریں بے چین روح کی طرح بھٹک رہی ہیں۔

سینیٹر مسرور احسن کی طرح وقار مہدی کو بھی طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے سینیٹ میں بھرپور آواز اٹھانی ہوگی اور سندھ حکومت کو سمجھانا ہوگا کہ وہ جامعات کے تعلیمی نظام میں نوکر شاہی کے نمائندوں کی سرکاری تعیناتی سے باز رہے تاکہ آمرانہ نظام کی باقیات کا نکالا ہمیشہ کے لیے کیا جا سکے کہ یہی مہدی نظمی کی سوچ کی کامیابی ہوگی اور یہی کوشش ایک بہتر سیاسی سماج کی بنیاد فراہم کرنے کا باوقار انداز ہو گا۔
 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

قوم پرستی اور علیحدگی پسند

سندھ میں مختلف جماعتوں کے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کے چیف کوآرڈینیٹر سید صدرالدین شاہ راشدی، جن کا تعلق پیرپگاڑا خاندان سے ہے، نے کہا ہے کہ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں میں فرق کو سمجھے، ہمیں کسی سے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہمارے خاندان نے اسلام اور پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر بھارتی دھمکیوں کے بعد دریائے سندھ بچاؤ تحریک کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

دریائے سندھ سے متعدد نہریں نکالنے کا منصوبہ جس کی مبینہ طور پر پہلے صدر آصف زرداری نے حمایت کی تھی بعد میں اس منصوبے کی مخالفت کی تھی اور پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی سندھ میں اس لیے جلسے کیے تھے کہ جی ڈی اے اور علیحدگی پسند تنظیموں نے کینال منصوبے پر پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی تھی اور پی پی قیادت پر سندھ کے مفادات پر سودا کرنے کے الزامات لگائے تھے اور سندھ میں پی پی کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا جس پر سندھ میں اپنی سیاست بچانے کے لیے پیپلز پارٹی نے کینال منصوبہ واپس لینے پر وفاقی حکومت کو مجبور کر دیا تھا جس کے بعد بھی جی ڈی اے اور علیحدگی پسند مطمئن نہیں ہیں۔

دریائے سندھ بچاؤ کمیٹی میں جی ڈی اے کا اہم کردار ہے جس میں بعض قومی پارٹیاں اور سندھ کی قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں اور اسی سلسلے میں جی ڈی اے کا اہم اجلاس ہوا جس میں صدر الدین شاہ راشدی کو کہنا پڑا کہ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان فرق کو سمجھے اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرے۔

واضح رہے کہ کینالز نکالنے کے حکومتی منصوبے پر جی ڈی اے، پیپلز پارٹی کے بعد کراچی کے وکلا کا ایک گروپ بھی احتجاج میں شامل ہو گیا تھا اور سندھ پنجاب کے بارڈر پر انھوں نے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا جس کی قیادت کراچی بار کے رہنما کر رہے تھے اور اس احتجاج میں سندھ کی وہ علیحدگی پسند جماعتیں بھی شامل تھیں جن کے پرچم نمایاں تھے اور ان کی طرف سے بعض دفعہ اپنے مقررہ نعرے بھی لگائے جاتے تھے۔ سندھ کے دریا پر کینال منصوبہ چونکہ سندھ کے مفاد کے خلاف تھا جہاں پہلے ہی نہری پانی کے مسائل موجود ہیں ، مگر جی ڈی اے کسی الزام تراشی کا حصہ نہیں ہے اور علیحدگی پسند ہی مختلف الزامات لگاتے ہیں ۔

پیر صدرالدین شاہ نے درست کہا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے جی ڈی اے سندھ کے مفاد کو مقدم رکھے گی۔ کینالز کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کو بھی اپنے سیاسی مخالفین کے ہم آواز ہونا پڑا تھا کیونکہ یہ سندھ کی زندگی و موت جیسا مسئلہ تھا مگر حکومت کو مجبوری میں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قوم پرستی واقعی کوئی غلط نہیں اپنے علاقے کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کرنا، ہر قوم پرست کا حق ہے اور پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے جو سیاسی نہیں دریائے سندھ بچانے کے لیے ضروری تھا۔

سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیمیں آج نہیں عشروں سے موجود ہیں۔ سندھ کے مقابلے میں بلوچستان کے علیحدگی پسند انتہائی حد تک پہنچ گئے ہیں جنھوں نے ملک دشمنی میں بی ایل اے جیسی علیحدگی کی تحریکیں شروع کرکے ملک کے سب سے چھوٹے اور غریب صوبے بلوچستان میں انتشار پھیلا رکھا ہے جنھیں بھارت کی طرف سے اسلحہ، مالی اور ہر قسم کی سپورٹ مل رہی ہے جب کہ سندھ میں ایسا نہیں ہے۔

وہ سندھ کی علیحدگی کی تحریک عشروں سے چلا رہے ہیں مگر سندھ کے قوم پرست ان کے حامی نہیں نہ وہ سندھ کی ملک سے علیحدگی پر یقین رکھتے ہیں بلکہ سندھ کے حقوق کے داعی ہیں اور ملک گیر سیاست کرتے ہیں اور ملک کے عام انتخابات میں حصہ لے کر نشستیں بھی جیتتے ہیں جب کہ سندھ کے علیحدگی پسندوں کی سیاسی اہمیت یہ ہے کہ علیحدگی پسندی کی تحریک پر وہ یوسی کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی پی میں ان کے ہمدرد موجود ہیں جس کی وجہ سے سندھ حکومت بھی علیحدگی پسندوں کے لیے نرم رویہ رکھتی ہے جس کا ثبوت کراچی میں ہونے والا علیحدگی پسندوں کے احتجاج میں کھلے عام ملک دشمن نعرے بازی، ان کے مخصوص پرچم اور کلہاڑیوں کی نمائش ہے جو کئی بار کراچی پولیس سے محاذ آرائی پولیس اور ان کی موبائلوں کو نقصان بھی پہنچاتے رہتے ہیں مگر سندھ حکومت ان کے خلاف وہ کارروائی نہیں کرتی جو قوم پرست جی ڈی اے کے رہنماؤں کے خلاف شروع کر دی جاتی ہے۔

سابق نگراں وزیر اعظم اور بھٹو دور سے سندھ میں مقبول قومی رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی نے پی پی سے الگ ہو کر اپنی نیشنل پیپلز پارٹی بنائی تھی جن کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی این پی پی سے سیاست برقرار رکھے ہوئے ہیں اور جی ڈی اے میں شامل ہیں۔

غلام مرتضیٰ جتوئی اور ان کے بھائی جو صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، پر متعدد مقدمات قائم ہیں اور انھیں دو بار گرفتار بھی کیا گیا جو ہر بار عدالتی ضمانت پر رہا ہوئے اور جی ڈی اے جتوئی برادران کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کو پیپلز پارٹی کا سیاسی انتقام قرار دے کر اس کی مذمت بھی کرتی آ رہی ہے اور اب جی ڈی اے کے سربراہ کو کہنا پڑا ہے کہ سندھ حکومت قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے فرق کو سمجھے اور سیاسی بنیاد پر انھیں ہراساں نہ کرے۔ ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد بھی سندھ حکومت پر ایسے ہی الزامات لگا چکے ہیں کیونکہ جتوئی برادران کی طرح ان کے ساتھ بھی سندھ حکومت کا یہی سلوک چلا آ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈی جی آئی ایس پی آرکی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے طلبہ کیساتھ خصوصی نشست
  • صدر زرداری کی 70ویں سالگرہ؛ لاہور میں پروقار تقریب کا انعقاد، 70 پاؤنڈ وزنی کیک کاٹا جائیگا
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے طلبہ کیساتھ خصوصی نشست
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن کے وفد کی برطانوی ای سی سی ٹِس حکام سے ملاقات
  • کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا
  • ریلوے کا محکمہ ڈیجٹیل ہوا اسی طرح اس امتحان کا رزلٹ بھی آن لائن بنا دیا گیا ، وزیر ریلوے
  • کولمبیا یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ سے 221 ملین ڈالر کے تصفیے پر اتفاق
  • قوم پرستی اور علیحدگی پسند
  •   کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظاہروں پر 80 طلبا کو بےدخل کردیا