وقف ترمیمی بل کو جے پی سی کی منظوری، اپوزیشن کی تجاویز مسترد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
حکمران جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ ان ترامیم سے وقف بورڈ کے کام کاج میں شفافیت آئے گی اور انہیں جوابدہ بنایا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال، جو پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ این ڈی اے کے ارکان کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو قبول کر لیا گیا ہے۔ وقف ترمیمی ایکٹ پر پیر کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں 44 ترامیم پر غور کیا گیا۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کے ارکان پارلیمنٹ کی ترامیم کو قبول کر لیا گیا جبکہ اپوزیشن کی ترامیم کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال نے کہا کہ این ڈی اے کے ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے پیش کردہ 14 ترامیم کو قبول کر لیا گیا جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تمام ترامیم کو مسترد کر دیا گیا۔ کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ ایک بڑی ترمیم یہ تھی کہ موجودہ وقف املاک پر صارفین کے ذریعہ وقف کی بنیاد پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
آج کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ میں حکمران حکومت کے 16 ارکان پارلیمنٹ نے ترامیم کے حق میں جبکہ 10 اپوزیشن ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اپوزیشن کی ترامیم میں اپوزیشن کو بل کی 44 شقوں پر اعتراضات تھے لیکن انہیں مسترد کر دیا گیا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جے پی سی کا کہنا ہے کہ اس کی مسودہ رپورٹ 28 جنوری کو گردش میں آئے گی، جب کہ اسے سرکاری طور پر 29 جنوری کو اپنایا جائے گا۔ اس میٹنگ کے بعد ٹی ایم سی ایم پی کلیان بنرجی نے کہا کہ آج انہوں نے وہی کیا جو انہوں نے طے کیا تھا۔ اس نے ہمیں بولنے کا وقت بھی نہیں دیا۔ کسی اصول یا طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔
یہ کمیٹی 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پیش کیے جانے کے فوراً بعد تشکیل دی گئی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل میں مجوزہ ترامیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ساتھ ہی حکمران جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ ان ترامیم سے وقف بورڈ کے کام کاج میں شفافیت آئے گی اور انہیں جوابدہ بنایا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپوزیشن کی ترامیم کو کی طرف سے بی جے پی
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔