ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ایران
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکا سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ایران WhatsAppFacebookTwitter 0 27 January, 2025 سب نیوز
تہران (سب نیوز )سینئر ایرانی سفارت کار نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاس میں واپسی کے بعد سے ایران اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کے پیغامات کا تبادلہ نہیں ہوا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی نے مقامی خبر رساں ایجنسی ایسنا کو بتایا کہ نئی امریکی انتظامیہ کو اقتدار سنبھالے چند ہی دن ہوئے ہیں اور اب تک پیغامات کا تبادلہ نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ سے زیادہ دبا کی پالیسی پر عمل کیا، اور امریکا کو تاریخی جوہری معاہدے سے نکال دیا، جس کے تحت پابندیوں میں ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
واشنگٹن کے دستبرداری تک تہران اس معاہدے پر قائم رہا، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے، بعد ازاں ایران اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹا شروع ہوا جبکہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔
ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ ہمیں پرسکون رہتے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی، جب دوسری طرف (ڈونلڈ ٹرمپ) کی پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا ہے، ہم اس کے حوالے سے ردعمل دیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل کہا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملوں سے گریز کریں گے اور ایک معاہدے کی امید رکھتے ہیں۔
ایران نے بارہا اس معاہدے کو بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور جولائی میں اقتدار سنبھالنے والے صدر مسعود پزشکیان نے اپنے ملک کی تنہائی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔رواں ماہ کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاس واپسی سے قبل ایرانی عہدیداروں نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ہم منصبوں کے ساتھ جوہری مذاکرات کیے تھے۔دونوں فریقوں نے بات چیت کو تعمیری قرار دیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نہیں ہوا
پڑھیں:
ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری مذاکرات پر سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور اسی ضمن میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ماسکو کا دورہ کرنے والے عمان کے سربراہ سلطان ہیثم بن طارق السعید کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔
عمان ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں، جس سے ایران کے جوہری پروگرام کو روکا جا سکے۔
اس سلسلے میں پہلے دور کے مذاکرات عمان میں ہوئے تھے، جبکہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اس پر روم میں مکالمت ہوئی تھی اور اب تیسرے دور کی بات چیت ہونے والی ہے۔
(جاری ہے)
ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس کا مقصد جوہری ہتھیار تیار کرنا ہے، جبکہ ایران اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ جوہری مذاکرات ’’تعمیری‘‘ رہے، ایران
روس نے اس بارے میں کیا کہا؟کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کے روز ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "اس موضوع پر عمان کی ثالثی کی کوششوں کے تناظر میں بات چیت کی گئی ہے۔"
انٹرفیکس کے مطابق کریملن کے خارجہ پالیسی کے معاون یوری اوشاکوف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں فریقوں نے "ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔
"نئے امریکی ایرانی مذاکرات سے قبل سعودی وزیر دفاع تہران میں
اوشاکوف نے اس حوالے سے کہا، "ہم دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم اپنے ایرانی ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ جہاں ہم مدد کر سکتے ہیں، مدد کریں گے۔"
صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے معاہدہ طے نہیں پاتا ہے، تو ایران پر بمباری کی جائے گی۔
ادھر ایران نے کہا ہے کہ بمباری کی دھمکی کے تحت کوئی بھی معاہدہ نہیں ہو سکتا ہے۔روس نے جنوری میں ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
روس نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف کوئی بھی امریکی فوجی کارروائی غیر قانونی ہو گی۔
ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں ماسکو کا بھی اپنا ایک کردار ہے جس نے سن 2015 کے پچھلے تاریخی جوہری معاہدے پر امریکہ کے دستخط بھی کیے تھے۔
البتہ ٹرمپ نے 2018 میں امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران اس معاہدے کو ترک کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے بھی معاہدے کی شرائط پرعمل کرنا بند کر دیا۔ایران جوہری بم بنانے سے ’بہت دور‘ نہیں، رافائل گروسی
عمان کے سلطان کا دورہ روسٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تبصروں میں، پوٹن کو عمان کے سلطان کو یہ بتاتے ہوئے دکھایا گیا کہ روسی توانائی کمپنیاں عمان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
اس دوران پوٹن نے رواں برس کے اواخر میں عرب لیگ کے ممالک کے گروپ کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے روس مغربی پابندیوں کے بعد سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے لیے ایشیائی، افریقی اور عرب ممالک کا رخ کر رہا ہے۔
روسی صدر نے عمان کے سلطان سے کہا کہ "ہم اس سال روس اور عرب ممالک کے درمیان سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
"امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
انہوں نے تاریخ اور مقام کی وضاحت کیے بغیر سلطان ہیثم بن طارق السعید کو سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے مزید کہا،"عرب دنیا میں ہمارے بہت سے دوست اس خیال کی حمایت کرتے ہیں۔"
عمانی سلطان کا یہ دورہ اس وقت ہوا ہے، جب چند روز قبل ہی صدر پوٹن نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی ماسکو میں میزبانی کی تھی۔
ادارت جاوید اختر