امریکا: بزرگ اور اکیلے افراد کو کمپنی دینے کیلئے کتا تیار
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
امریکی روبوٹکس کمپنی ٹام بوٹ نے بوڑھے اور دماغی پریشانی سے دوچار افراد کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایک کتا تیار کیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس کتے کو ’جینی‘ کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے، یہ صحت کے مسائل، اکیلے پن کے شکار افراد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس ٹیک پیٹ کو دماغی صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنے والے لاکھوں لوگوں کے لیے مددگار قرار دیا جارہا ہے۔
اس روبوٹک کتے میں بہت ہی مہارت کے ساتھ جدید ترین سینسرز لگائے گئے ہیں جو انسانوں کے چھونے پر بالکل اصلی کتے کی طرح جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس روبوٹک کتے میں آواز کو سننے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے جس کی وجہ سے یہ حقیقت کے مزید قریب تر ہوجاتا ہے۔
یہ روبوٹک کتا بیٹری کے ذریعے کام کرتا ہے جسے عام موبائل فون کی طرح چارج کیا جا سکتا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ایپلیکیشن کے ذریعے اس ٹام بوٹ نامی کتے میں تبدیلی اور اسے اپ ڈیٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی میڈیا کے مطابق
پڑھیں:
چین نے امریکی کمپنی اینوڈیا کی چِپس خریدنے پر اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندی لگادی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چین کے انٹرنیٹ ریگولیٹر نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو امریکی کمپنی اینوڈیا (Nvidia) کی نئی اے آئی چِپس خریدنے سے روک دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا (سی اے سی) نے علی بابا اور بائٹ ڈانس سمیت دیگر کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اینوڈیا کی خصوصی طور پر چین کے لیے تیار کی گئی RTX Pro 6000D چپ کے آرڈرز اور ٹیسٹنگ کا عمل بند کر دیں۔ یہ ہدایت اس وقت سامنے آئی جب کئی کمپنیوں نے اس پروڈکٹ کے ہزاروں یونٹس خریدنے کا عندیہ دیا اور ٹیسٹنگ بھی شروع کر دی تھی۔
یہ پابندی اس سے پہلے لگائی گئی اینوڈیا کے H20 ماڈل پر عائد قدغن سے بھی سخت تصور کی جا رہی ہے، کیونکہ H20 بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے منصوبوں میں استعمال ہو رہا تھا۔ رپورٹس کے مطابق چینی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مقامی چپ ساز ادارے اب ایسے پروسیسرز تیار کر رہے ہیں جو اینوڈیا کے ان برآمدی ماڈلز کے برابر یا بعض صورتوں میں ان سے زیادہ بہتر ہیں۔ اسی لیے چین اب اپنی کمپنیوں کو اینوڈیا پر انحصار ختم کرنے اور مکمل طور پر مقامی سیمی کنڈکٹرز پر منتقل ہونے کی طرف لے جا رہا ہے۔
انوڈیا کے چیف ایگزیکٹو جینسن ہوانگ نے لندن میں میڈیا کو بتایا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے چین میں کمپنی کے مستقبل کے حوالے سے بات کریں گے۔ واضح رہے کہ اینوڈیا نے یہ خصوصی چپس اس وقت متعارف کروائی تھیں جب سابق صدر جو بائیڈن نے کمپنی کو اپنے طاقتور ترین پروڈکٹس چین کو برآمد کرنے سے روک دیا تھا۔ اس پابندی کے بعد کمپنی نے نسبتاً کم طاقتور ماڈلز متعارف کرائے تاکہ وہ چین میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اب ہواوے اور کیمبرکون جیسی مقامی چپ ساز کمپنیاں، اس کے علاوہ بائڈو اور علی بابا جیسے بڑے ادارے، اپنی اے آئی چپ ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق چینی پروسیسرز اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ امریکی ماڈلز کا متبادل بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ امریکا کے ساتھ مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹرز کی دوڑ میں خود کفالت اور بالادستی حاصل کرنا چاہتا ہے۔