بدین/ میرپورخاص/ ٹنڈو جام: پیکا قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
بدین (نمائندہ جسارت) وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا قانون کے خلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کی اپیل پر پریس کلب سے ایوان صحافت تک ریلی نکال کر مظاہرہ کیا گیا۔ حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کے جوائنٹ سیکرٹری شفیع محمد کی قیادت میں نکالی گئی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یونین آف جرنلسٹس ضلع بدین کے جنرل سیکرٹری شاد الطاف میمن، ایوان صحافت کے صدر لالا ہارون گوپانگ، پریس کلب کے نائب صدر اشرف عبداللہ میمن، جنرل سیکرٹری عبدالشکور میمن محمد علی بلیدی، سید اختر شاہ اور دیگر نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنی کرتوتوں کو چھپانے کے لیے ہمیشہ میڈیا پر حملے کرتی رہی ہے، حال ہی میں میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے پیکا قانون لایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے من پسند فیصلے کر سکے اور میڈیا خاموش رہے۔
میرپورخاص (نمائندہ جسارت) حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ کو منظور کیے جانے کے خلاف پی ایف یو جے میرپورخاص یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے پریس کلب پر احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر بات کرتے ہوئے صدر پریس کلب نذیر احمد پنھور، سینئر صحافی سلیم آزاد، سید محمد خالد، شوکت پنھور، واحد حسین پہلوانی، عاطف بلوچ اور ڈان نیوز کے رپورٹر محمد امجد کا کہنا تھا کہ صحافت اور اظہار کی آزادی پر ہمیشہ آمریتی ادوار میں پابندیاں لگائی گئیں اور اب خود کو جمہوریت پسند کہلوانے والے حکمرانوں نے ایسا قانون بنایا ہے جس میں فیک نیوز کے آڑ میں اصل حقیقتیں سامنے لانے پر بھی پابندی لاگو کی گئی ہے، جھوٹی خبروں کی کوئی حمایت نہیں کرتا لیکن حکومت اپنے غلط کام سامنے آنے کے ڈر سے صحافیوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت) پیکا ایکٹ کی منظوری کے خلاف پریس کلب پر احتجاج، قانون صحافیوں کی آواز دبانے کی خاطر لایا گیا ہے تاکہ حکمرانوں پر کوئی تنقید نہ کر سکے۔ پیکا ایکٹ کی سینیٹ سے بھی منظوری کے خلاف چیف ایگزیکٹو کمیٹی پریس کلب اورنگ زیب بھٹو کی قیادت میں مظاہرہ کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی خادم حسین لاکھو، احسن جمالی، منصف تالپور حاکم زادری سمیت دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ کی منظوری سے ملک کا چوتھا ستون صحافت کمزور ہو گا اور حکمرانوں نے اسے صرف اپنے اوپر تنقید کو روکنے کی خاطر منظور کیا ہے، کل خود انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ انہوں نے کہا صحافت کی آزادی سلب کرنے سے ملک میں گھوٹن پیدا ہوگی جس کے نتائج حکمرانوں کو بھگتنا پڑیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے پیکا ایکٹ یونین ا ف پریس کلب کے خلاف
پڑھیں:
صدرِ مملکت نے کم عمری شادی ممانعت کے قانون پر دستخط کر دیے، خلاف ورزی پر سخت سزائیں نافذ
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کم عمری (نابالغ) کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔ بل قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی اور سینیٹ میں شیری رحمٰن کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
نئے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کا نکاح ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور کسی بھی نکاح خواں کو ایسے نکاح کی ادائیگی پر ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگر 18 سال سے زائد عمر کا شخص کسی کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے، تو اسے 3 سال تک قیدِ بامشقت کی سزا دی جا سکے گی۔ اسی طرح والدین یا سرپرست اگر کم عمر بچوں کی شادی کرائیں یا اسے روکنے میں ناکام رہیں، تو انہیں بھی 3سال قید بامشقت اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: کم عمر بچوں کی شادیوں کے بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئی ہیں؟
قانون میں عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر اسے کسی کم عمر شادی کی اطلاع ہو، تو وہ شادی رکوانے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔ اطلاع دینے والا شخص اگر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنا چاہے تو عدالت اُسے تحفظ فراہم کرے گی۔
یہ قانون کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بل کی مخالفت کیوں کی؟کم عمر بچوں کی شادیوں کے بل کی مخالفت ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر ایسے بل آئیں گے جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہوں گے تو تنازع پیدا ہوگا۔ اسمبلیاں بانجھ نہیں ہیں، قرآن و سنت کے خلاف اگر کوئی بل یا قانون ہو تو اسے اسمبلی میں آنا ہی نہیں چاہیے۔
بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئی ہیں؟سینیٹ اور قومی اسمبلی سے کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی سے متعلق بل منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔ وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی سے متعلق بل میں کیا سزائیں تجویز کی گئیں ہیں؟
شادی کے مرتکب کی سزابل کے متن کے مطابق 18 سال سے زائد عمر مرد کی اگر کمسن لڑکی سے شادی ہوتی ہے تو اس کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے، اس مرد کو کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہوگی، اس کے علاوہ جرمانہ بھی ہوگا۔
مزید پڑھیں: بیک وقت 2 لڑکیوں کی ایک لڑکے سے شادی: ’ایک کو بھگا کر لایا، دوسری خود پہنچ گئی‘
اس کے علاوہ بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کی شادی کے نتیجے میں مباشرت نابالغ فرد سے زیادتی تصور کی جائے گی چاہی یہ شادی رضامندی سے ہوئی ہو یا بغیر رضامندی کے۔
نکاح کروانے والی کی سزابل کے مطابق نابالغ دلہن یا دولہے کو شادی پر مائل کرنے، مجبور کرنے، ترغیب دینے یا زبردستی شادی کرانے والا شخص چاہے وہ کوئی بھی رشتے دار ہو وہ شخص بھی زیادتی کا مرتکب قرار دیا جائےگا۔ ایسے شخص کو کم سے کم 5 اور زیادہ سے زیادہ 7 سال قید، اور 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
والدین کو کم عمر بچوں کی شادی کرانے پر 3 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہوگی۔
نکاح رجسڑار کی سزابل میں نکاح رجسٹرار کے لیے بھی سزائیں تجویز کی گئی ہے، کم عمر بچوں کا نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے سے قبل دولہا دلہن کے اصلی کمپیوٹررائز شناختی کارڈز کی موجودگی یقینی بنائے گا، اگر کمپیوٹررائز شناختی کارڈز کی غیر موجودگی میں نکاح پڑھایا گیا اور رجسٹر کرایا گیا تو ایسے نکاح رجسٹرار ایک سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
عدالتی اختیاربل کے مطابق کم عمر بچوں کی شادی رکوانے کے لیے عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ حکم امتنا جاری کرے جبکہ عدالت پر پابندی ہوگی کہ وہ کم عمر کی شادی کے مقدمات کا فیصلہ 90 روز میں کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بچے بچیاں بل دستخط شادی کی ممانعت صدر مملکت آصف علی زرداری کم عمری نابالغ